جابر ”سلاطین“ کے سامنے کلمۂ حق: ”اور سوات جلتا رہا“


2000 ء میں جب باقی دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہونے کی خوشیاں منا رہی تھی، وادیٔ سوات میں سولہویں صدی کی طرف واپسی کے سفر کی تیاریاں مکمل تھیں۔ بیسویں صدی کے تمام آثار مٹانے کا عمل شروع ہوا۔ اسکولوں کی عمارتیں اس تباہی کا خاص نشانہ تھیں۔ پل، تھانے، سڑکیں، گھر اور تعمیر کی ہر علامت خود کش حملے کی زد میں تھی۔ اس دوران چھٹی قبل مسیح کے بدھ آثار کو مٹانے کا عمل بھی شروع ہوا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ماضی کی طرف واپسی کا یہ سفر کون سی صدی میں جاکر رکے گا؟

کتنی تباہی ہوئی؟ یہ داستان طویل بھی ہے، دردناک بھی اور عبرتناک بھی۔ کشت و خون کے مناظر عام تھے۔ گلیوں اور چوراہوں میں سربریدہ لاشوں کا لٹکتا ہوا نظر آنا روز کا معمول تھا۔ روز کسی تھانے پر خودکش حملہ، کسی اسکول کی عمارت کو بارود سے اڑانے، کسی کے ’لاپتہ‘ ہونے اور کچھ عرصہ بعد لاش برآمد ہونے، بھرے بازار میں نامی گرامی لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ اور قاتلوں کا بحفاظت چلے جانے کے واقعات دو، دو، تین تین کالم کی عام سی خبروں کے طور پر چھپتی تھیں۔ پولیس نظام کی مکمل ناکامی کے بعد پاک فوج آئی لیکن امن نہیں آیا اور بدامنی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔

پھر نقل مکانی کا مرحلہ آیا۔ لاکھوں لوگوں کو ایک ہی دن میں اپنا گھربار اللہ کے حوالے کر کے وادی کی حدود سے نکل بھاگنے کا حکم عام آیا۔ لاکھوں لوگ جب سڑک پر آئے تو ٹرانسپورٹ کی شدید قلت پڑ گئی کیوں کہ حکومت کے پاس اعلان ہجرت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ سڑکوں پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ٹریفک جام اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ پانچ اور سات مئی 2008 ء کے دو دن تقریباً 15 لاکھ لوگوں کا وادی سے نکل بھاگنے کا عمل صرف سوات ہی نہیں، اس پورے خطے کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔

پھر متاثرین دہشت گردی کے قیام یعنی کیمپوں وغیرہ کا مرحلہ آیا۔ مئی سے جولائی 2008 ء تک کے یہ چند دن لوگوں نے جس طرح لمحے گن گن کر گزارے، اللہ وہ وقت کسی کو نہ دکھائے۔ لاکھوں متاثرین میں ہر فرد کی اپنی ایک کہانی تھی۔ شدید گرمی، بے سروسامانی، مردان، پشاور، صوابی، چارسدہ اور پورے پاکستان سے لوگوں کی محبتیں، بروقت عالمی امداد اور ’راشن‘ ۔ صرف نقل مکانی کے دوران لاکھوں کہانیوں نے جنم لیا۔ پھر واپسی کا مرحلہ آیا۔ واپسی کا سفر بھی ایک نہایت ہی دل چسپ کہانی، بلکہ کہانی در کہانی، در کہانی ہے۔

میرے ایک دوست (فضل حیدر) نے بتایا کہ اس کے گھر شیشے کے ایک بڑے مرتبان میں رنگ رنگ کی مچھلیاں پالی گئی تھیں۔ مکان چھوڑتے وقت نہ اسے مچھلیوں کا خیال آیا اور نہ ہی اتنا موقع تھا کہ وہ اپنی پالی ہوئی مچھلیوں کا کچھ انتظام کرے۔ ترک وطن کے تمام عرصے میں اسے یہی فکر دامن گیر تھی کہ معلوم نہیں مچھلیوں کی معصوم جانوں پر دہشت گردی کے اس جنگ نے کیا ظلم کیا ہوگا؟

فضل حیدر کہتا ہے : واپسی پر جب میں اپنے گھر داخل ہوا تو سب سے پہلے اس کمرے میں دوڑتا ہوا گیا، جہاں مچھلیوں کا مرتبان تھا۔ جوں ہی مچھلیوں نے میری آہٹ محسوس کی، تمام کی تمام چشم زدن میں مرتبان کے اس شیشے کے پاس جمع ہو گئیں جہاں میں کھڑا تھا۔ مچھلیوں کو خیریت سے زندہ سلامت دیکھ کر میری آدھی تھکن دور ہو گئی۔

ایک دوسرے دوست (ضیاء الدین یوسف زئ) نے بتایا کہ ان کے گھر دو چوزے رہ گئے تھے۔ معلوم نہیں اس ویرانی میں ان پر کیا گزری لیکن جب ہم واپس گھر پہنچے تو دونوں چوزوں کے ڈھانچے گویا ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک میز کے اوپر مرے پڑے تھے۔ میں نے ایک بزرگ کو اپنے کتے کی یاد میں افسردہ دیکھا۔ کہتا تھا کہ کتا گھر کی چھت پر چھوڑ آیا ہوں، معلوم نہیں وہ اتنی اونچی چھت سے چھلانگ لگا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اس نے چھلانگ لگائی ہے تو پتہ نہیں کچھ کھانے پینے کو ملا ہو گا، یا چھت پر اس کی لاش ہی ملے گی؟

یہ تو ذیلی کہانیاں (Side Stories) ہیں۔ اصل کہانیوں کے بارے میں بھی مجھے بہت دکھ ہوتا تھا کہ اس وادی کے لوگوں نے دہشت کے جو مناظر دیکھے ہیں، ان میں بہت سے مناظر تاریخ کی نظروں سے اوجھل رہ گئے ہیں۔

برادر محترم فضل ربی راہیؔ کی زیرنظر کتاب، ’اور سوات جلتا رہا‘ ، بڑی حد تک اس دکھ کا مرہم ثابت ہوئی ہے۔ فساد سوات 2007 ء پر اس سے زیادہ مفصل، مستند اور منزل بہ منزل کتاب ابھی تک میری نظروں سے دوسری کوئی نہیں گزری۔ اس کتاب میں سوات کا صدیوں پر محیط پس منظر بھی ہے اور فساد سوات کی لمحہ بہ لمحہ داستان بھی۔

یہ کتاب دراصل فضل ربی راہی کے ان اخباری کالموں کا مجموعہ ہے، جو فساد کے دوران لکھے گئے اور مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ یہی اس کتاب کی خوبی ہے کہ اس میں تاریخ کو ماضی کی کہانی نہیں بلکہ حال کے ایک رواں دواں واقعے کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

یہ کوئی درباری سرکاری تاریخ بھی نہیں بلکہ ان گلی کوچوں میں لکھی گئی تحریریں ہیں، جہاں مصنف نے اپنی آنکھوں سے ظلم و جور کی انتہائیں دیکھیں۔ وہ ان تمام حالات کے ایک بیدار مغز، ذمہ دار اور جذبہ خیرخواہی سے سرشار گواہ ہیں۔ اس گواہی کے دوران ان کی جان ہتھیلی پر تھی۔ انہوں نے جان کی پروا کیے بغیر، بڑی جرات، دانش مندی اور کمال ہنر کے ساتھ یہ گواہی دی ہے۔

اگر آپ سن 2007 ء سے قبل کی فضل ربی راہی کی تحریریں مطالعہ کریں تو ان میں فلک بوس پہاڑوں، گن گناتی آبشاروں، شہد، پھلوں، پھولوں، دریائے سوات کے ٹھنڈے پانی اور خوب صورت قدرتی مناظر کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ انہوں نے سوات کی تاریخ، بدھ مت اور گندھارا تہذیب پر بھی کئی کتابیں اور بے شمار مضامین لکھے ہیں لیکن سوات کا حسن آپ کا خاص موضوع تھا۔

2007 ء کے فساد نے فضل ربی راہی کے قلم سے سوات کی گن گناتی آبشاروں، شہد، پھلوں اور پھولوں کے تذکرے چھین لئے اور انہیں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ہجرت و تباہی کی کہانیاں تھمائی ہیں۔ فضل ربی راہی نے خوش گوار اور ناخوش گوار دونوں فرائض بخوبی نبھائے ہیں اور زیر نظر کتاب اس دعوے کے حق میں کافی شہادت ہے۔

فضل ربی راہی بنیادی طور پر ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر ہیں۔ جب سے انہوں نے ہوش اور قلم سنبھالا ہے سوات کے قدرتی حسن، سیاحتی اہمیت، تاریخی آثار اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر کثرت سے لکھتے رہے ہیں۔ آپ نہ صرف خود درجنوں کتب اور سیکڑوں بلکہ شاید ہزاروں مضامین کے لکھنے والے ہیں بلکہ سیکڑوں دوسرے شعراء، ادیبوں اور اصحاب قلم کی کتب کی اشاعت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ زیرنظر موضوع پر کتاب لکھنے کے لئے ان سے زیادہ موزوں شخصیت شاید ہی کوئی اور ہو۔

راہی صاحب تمام فساد کے دوران سوات میں موجود رہے۔ نقل مکانی کی اذیتوں سے خود گزرے ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مذاکراتی جرگوں اور امن کوششوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر سوات کی تاریخ پر اپنی ایک ایسی چھاپ نقش کردی ہے کہ تاریخ کے طالب علم اور آنے والے دور کے مؤرخین ان کی اس کاوش سے روشنی حاصل کریں گے۔

جن حالات میں راہیؔ صاحب نے یہ کالم لکھے ہیں ان کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔ 2007 ء سے 2009 ء تک سوات کی فضاؤں پر خوف اور دہشت کی ایسی دبیز چادر تنی ہوئی تھی جس کے اندر سانس لینا دشوار تھا۔ ہر آدمی کو اپنا آپ خطرے میں لگتا تھا۔ لوگ نجی محفلوں میں بھی فوج اور طالبان کا ذکر کرنے سے کتراتے تھے لیکن راہی صاحب نے فوج اور طالبان دونوں کے کردار پر سوالات اٹھائے، غم و غصے کا اظہار کیا، پند و نصیحت بھی کی اور لعنت ملامت بھی۔

اور اپنی سوچ و فکر کے اس پورے عمل کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا بلکہ باقاعدگی سے اشاعت کے لئے اخبارات کو دیتے رہے۔ میری طرف سے ان کی جان ہر وقت خطرے میں تھی لیکن زندگی اور موت کے فیصلے نہ بیرکوں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی خفیہ ٹھکانوں پر، یہی وجہ ہے کہ آج زندگی اور موت کے فیصلوں کا اختیار رکھنے کے دعویدار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور جابر سلطان نہیں بلکہ جابر سلاطین کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے والے فضل ربی راہی زندہ سلامت ہیں۔

میری خواہش ہے کہ اس پیش لفظ میں راہیؔ صاحب کی ان تحریروں کے اقتباسات پیش کروں جو انتہائی گھٹن کے دور میں ان کی جرات کے نمونوں کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن پوری کتاب اس طرح کے نمونوں پر مشتمل ہیں لہٰذا الگ سے ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ راہیؔ صاحب نے تاریخ سوات کے اہم ابواب رقم کیے ہیں۔ تشنگی بہت حد تک پوری ہو گئی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے چھوٹے چھوٹے سانحات پر بھی سیکڑوں کتابیں لاتی ہیں۔

فساد سوات پر راہیؔ صاحب کی یہ کتاب بہت اچھا آغاز ہے۔ انہوں نے بنیادی پتھر رکھ دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ بنیاد صرف بنیاد نہ رہے بلکہ اس پرایک ایسی عمارت تعمیر ہو جو بدامنی سے امن، تشدد سے مہمان نوازی، بربادی سے آبادی اور پھر ایک خوب صورت اور پر امن زندگی کی طرف واپسی کا سفر سیکھنے کا مدرسہ بن جائے، آمین۔

کتاب: اور سوات جلتا رہا
مصنف : فضل ربی راہی
ناشر: شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز
سوات مارکیٹ، جی ٹی روڈ مینگورہ، سوات
فون: 0946۔ 729448


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments