سمیع چوہدری کا کالم: تین ریگولر سپنرز کو اٹیک کیسے کیا جائے؟

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


فخر زمان، معین علی، عادل رشید

پاکستانی ٹیم اگر ایشیا سے باہر کہیں سپنرز کے ہاتھوں ڈھیر ہو جائے تو بات خاصے اچنبھے کی ہے۔ یہ ہضم کرنا خاصا مشکل ہے کہ صہیب مقصود، محمد حفیظ اور فخر زمان پر مشتمل مڈل آرڈر تین انگلش سپنرز سے مات کھا گیا۔

انگلش بولنگ میں سپن کے گیارہ اوورز نے محض ستاسی رنز کے عوض پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ صرف معین علی تھے کہ جن پر کسی حد تک اٹیک کی ناکام کوشش کی گئی لیکن میٹ پارکنسن اور عادل رشید نے تو پاکستانی بلے بازوں کو یہ جسارت بھی نہ کرنے دی۔

بابر اعظم اور محمد رضوان نے ایک بار پھر مستحکم آغاز فراہم کیا اور اسی حکمتِ عملی کے تحت میچ کو لے کر چلے جو اس بیٹنگ لائن کے لیے سرخروئی کا واحد راستہ ہے، کہ آخری دس اوورز کے لیے وکٹیں بچائی جائیں۔

اور بابر اعظم کے جلد آؤٹ ہو جانے کے باوجود محمد رضوان نے یہ یقینی بنایا کہ اپنے بعد آنے والے پاور ہٹرز کے لائن اپ کو ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کیا جائے۔ مطلوبہ رن ریٹ ایسے مواقع پر کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا کہ اس ٹیم میں ایسے ہٹرز بہرحال موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر ایک اوور میں بیس رنز بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ تھا وہ پلان جو پاکستان لے کر چلا۔

اس کے برعکس بٹلر کا پلان خاصا مختلف تھا۔ اس میچ میں سب سے زیادہ انفرادی سکور کرنے والے انگلش کپتان کو یہ معلوم تھا کہ وکٹ پیسرز کے لیے بہت مشکل تھی اور چھوٹی باؤنڈریز والے گراؤنڈ میں پیس اٹیک کے ذریعے اس ہدف کا دفاع تقریباً ناممکن تھا۔

عادل، معین

بلاشبہ پاکستانی پیسرز نے ڈیتھ اوورز میں بہت خوب بولنگ کی اور مجموعی طور پر چھ وکٹیں بھی حاصل کیں مگر کُل ملا کر ان وکٹوں کی قیمت پاکستانی بلے بازوں کی جیب سے کچھ بھاری تھی۔ 11.5 اوورز میں پاکستانی پیسرز نے 127 رنز دیے۔ فی اوور دس سے زائد کا اکانومی ریٹ کسی بھی اچھی بولنگ کاوش کی عکاسی نہیں کرتا۔

بٹلر نے شاید ان ہی اعدادوشمار سے سبق سیکھا اور گیارہ اوورز کا کوٹہ سپنرز کے نام کر دیا۔ اس پہ مستزاد کہ انہیں دو باقاعدہ لیگ سپنرز بھی میسر تھے۔ بیٹنگ کے لئے سازگار پچ پہ بچاؤ کی واحد امید گیند پہ سے رفتار کو گھٹانا تھی اور پارکنسن اس کی بہترین مثال ٹھہرے۔

یہ بھی پڑھیے

’مصباح اور وسیم اکرم عوام سے مکی آرتھر کی برطرفی پر معافی مانگیں‘

لیکن پاکستانی فیلڈنگ کا پلان کچھ اور ہی تھا

کیا بابر اعظم کی ٹیم اپنی شناخت بحال کر پائے گی؟

گویا یہ ٹیم ورلڈ کپ کا فائنل کھیل رہی ہو

ایسے ہائی سکورنگ مقابلے میں جب کوئی بولر بلے بازوں کے ہاتھ پیر باندھ چھوڑے تو یہ بات بیٹنگ ٹیم کے لیے بے قراری کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی بے قراری تھی جس نے محمد رضوان، محمد حفیظ اور فخر زمان کی کلیدی وکٹیں اڑا ڈالیں۔

اننگز کا اہم ترین مرحلہ بیچ کے اوورز ہوتے ہیں اور پاکستان نے مڈل اوورز میں 34 رنز کے عوض پانچ وکٹیں گنوائیں۔ اور یہ قحط الرجال تب پڑا جب معین علی و ہمنوا پاکستانی بلے بازوں کی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے تھے۔

شاداب، ٹام کرن

سیریز اگرچہ ابھی ختم نہیں ہوئی مگر پاکستان کے لیے یہ شکست ایک سبق ضرور ثابت ہو سکتی ہے کہ بالفرض اگر یہی میچ ورلڈ کپ کے دوران ابوظہبی یا دبئی کی وکٹ پر کھیلا جا رہا ہوتا اور اننگز کے مڈل اوورز میں پاکستانی بیٹنگ کو سپنرز کے خلاف اس مطلوبہ رن ریٹ سے سکور کرنا ہوتے تو یہ مڈل آرڈر کیا تدبیر لاتا۔

یہ شکست ایک بار پھر یہ واضح کر رہی ہے کہ اس بیٹنگ لائن کا سارا دارومدار بابر اعظم اور محمد رضوان کی پارٹنرشپ پر ہے۔ اگر مطلوبہ ہدف کا 70 فیصد حاصل کیے بغیر یہ دونوں بلے باز پویلین لوٹ جائیں تو بیٹنگ آرڈر پر وہی گزرتی ہے جو اندھے پر اندھیرے میں بیتے ہے۔

یہ شکست بولنگ لائن کی کجی بھی عیاں کر رہی ہے کہ حسن علی کے بغیر یہ بولنگ اٹیک رنز کا بہاؤ توڑنے میں مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ گو شاہین آفریدی اپنے حصے کا کام کر جاتے ہیں مگر پچھلے میچ میں بھی ان کے کوٹے کے سوا دیکھا جائے تو باقی ماندہ بولنگ نے فی اوور دس سے زیادہ رنز دیے۔

اب اگلے میچ سے پہلے پاکستان کو یہ عقدہ حل کرنا ہے کہ تین ریگولر سپنرز کو اٹیک کیسے کیا جائے؟ اور یہ سوال ایسا مشکل بھی نہیں کہ سپن کے اچھے پلیئرز جواب نہ لا پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp