افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا اور قومی بے حسی


 پاکستان میں افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی جوان بیٹی پرسوں اپنے بھائی کے لیے گفٹ خریدنے اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون گئی۔ چونکہ حالات کی وجہ سے وہ گھر سے نکل کر قریبی سٹاپ سے پرائیویٹ ٹیکسی میں مارکیٹ گئی۔ واپسی پر ٹیکسی میں “نامعلوم افراد” نے سوار ہو کر محترمہ کو زدوکوب کیا۔ اور ایف سیون کے جنگل میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جسمانی تشدد کی وجہ سے محترمہ بے ہوش ہو گئی۔ ہوش میں آنے کے بعد آپ  بجائے گھر جانے کے ایف نائن پارک چلی گی کیونکہ ان حالات میں گھر جانا مناسب نہیں سمجھا۔ اور ایف نائن پارک سے گھر کال کرکے گھر والوں کو بلایا۔ سوشل میڈیا پر پشاور کی ایک زخمی (تیسری جنس) کی تصویر وائرل ہوگئی۔جس پر مجبوری کے عالم میں افغان سفیر کو اپنی بیٹی کی تصویر شئیر کرنا پڑی۔
یہ واقعہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ دنیا کا کوئی اخلاقی نظام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت پر ہاتھ اٹھائے۔ خاص کر اس وقت میں جب دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید عدم اعتماد موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے نوٹس لیکر اچھی روایت ڈالی۔ لیکن دوسری طرف اس واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی پوسٹس گردش کررہی ہے۔ جن کا لکھاری اس سوچ کا حامل ہے جو خطہ میں بدامنی پھیلانے کا متمنی ہے۔  پشتون روایات اور اقدار پر حملہ پہلی بار نہیں۔ بلکہ یہ روش بن چکی ہے۔ احمد شاہ ابدالی کی روح تڑپتی ہوگی جس نے مرہٹوں سے نجات کے لیے سترہ حملے کیے۔ خوشحال خٹک جو افغانستان کا قومی شاعر بھی ہیں۔ آج افسوس اس سرزمین پر ایک پشتون بہن کے ساتھ نہ صرف ظلم کیا گیا بلکہ جعلی پروپیگنڈا چلایا جارہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین، سفارتی آداب و روایات ایک طرف اسلامی روایات کے علمبردار قوم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک مظلوم عورت کو انصاف کے بجائے اس کی کردار پر انگلیاں اٹھائے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب سے گزارش کی جاتی ہے کہ خدارا اس کیس کی نگرانی خود کریں۔ اور سوشل میڈیا پر اس کیس کو غلط رنگ دینے والے عناصر کے خلاف ایکشن لیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments