قرۃ العین بلوچ کے ”بھائی“ کے نام کھلا خط


ہمیں معاف کیجئے ثنا االلہ بلوچ صاحب کہ نعش کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد آپ کا بیان رپورٹ آ نے سے پہلے والی خامشی پہ بہت بھاری ہے۔ اتنا بھاری کہ تشدد کے خلاف بل کی مخالفت کرنے والوں کی پردہ کشائی ہے۔

”بہن کی شدید تشدد کے ساتھ موت دیکھ کر اب سوچتا ہوں کہ اپنی بیٹیوں کی شادی ہی نہ کروں۔ بیٹیاں بوجھ تھوڑی ہوتی ہیں۔ کہ انہیں درندوں کے حوالے کر دوں۔ گزشتہ دس سال کے دوران بہن کو شوہر نے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا کئی بار بہن کے شوہر کو گھریلو تشدد پہ گرفتار بھی کروایا۔ دنیا داری کا سوچ کر بہن کو طلاق نہیں دلوائی“

یہ بیان کا کچھ حصہ آپ کی اپنی نیت کا بھی غماز ہے کہ مرو یا جیو ہمارے گھر مت آ نا۔ زیادہ سے زیادہ ہم تمہارے شوہر کو گرفتار کروا سکتے ہیں۔ یہ تمہارے نصیب ہیں ان کو قبول کرو۔ طلاق کا سوچنا بھی مت۔ دنیا کیا کہے گی، ہم یہ نہیں سن سکتے۔ مگر ثنا اللہ صاحب جب بات آئی ہے اپنی بیٹی کی شادی کی تو آپ نے کہا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ جو انہیں درندوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر یہ قرۃ العین بھی تو کسی کی بیٹی تھی۔ جو تمہارے لئے بوجھ ہی تھی ناں۔ کہ طلاق ہوئی تو سنبھالنا پڑے گا۔ اس کے تشدد ہو تا رہے۔ ہمارے پاس نہ آئے۔ مطلب درد نہیں ہوا۔

آہ۔
جناب جب آپ کی بیٹیوں کی شادی نہیں ہو گی تو دنیا کیا کہے گی؟ کیا آپ نے سوچا؟

نہیں کیونکہ ان کی پھوپھی نے اپنی جان دے کر جواز دیا ہے کہ درندوں کے حوالے کرنے سے بہتر ہے شادی نہ کرو۔

ایک جملے پہ عورت مارچ میں لوگوں پہ آسمان گر گیا تھا وہ تھا
Divorced daughter is better than dead daughter
آج شاید کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ آ جائے گی۔

لیکن کیا آپ نے غور کیا ہے اس جملے میں لفظ بیٹی استعمال ہوا ہے۔ جی اور یہی حق ثنا اللہ صاحب اور دوسرے دنیا دار اپنی بیٹی کو تو دے سکتے ہیں، بہن کو نہیں۔ اس پو رے واقعہ میں جس کی یہ بیٹی تھی وہ کردار غائب ہے۔ نہیں معلوم وہ کردار اس دنیا میں ہے بھی یا نہیں۔ لیکن آپ ایسے اکثر کیسز دیکھ لیجیے یہ کردار غائب کر دیا جاتا ہے۔ اور بھائی کا کردار سامنے دکھائی دیتا ہے۔ قندیل بلوچ کے کردار میں بھی بھائی کی غیرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اگرچہ وہ کسی اور طرح کا کیس تھا۔

جو لوگ عورت مارچ کے خلاف ہیں وہ آج ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟ اک میت آئی ہے جواز لے کر، تو بولتی بند ہے۔ اب آپ لوگ کہیں گے کہ یہ تو چند لوگ ہوتے ہیں۔ جاناں چند ہو تو باتیں قانون سازی تک نہیں آتیں۔ چند قطروں سے سیلاب نہیں آتے۔

جناب ہم نے قرۃ العین کا نام عنوان میں اس لئے لکھا ہے کہ اب اس سے منسلک سب رشتوں کو اس کے نام سے پہچانا جائے گا۔ ثنا اللہ آپ نے بات کی ہے انصاف ملنے کی تو جناب آج تک ایسے کیسز میں نہ انصاف ملا ہے نہ ہی ملے گا۔ کیونکہ جب آپ گھر میں اپنی بہن اور بیٹی میں انصاف نہیں کر سکے تو ان عدالتوں کی کیا اوقات ہے کہ تفریق کریں۔ آپ جیسا ہی رویہ رکھیں گی۔

ایف آئی آر درج کروا دی اتنا ہی بھلا کر دیا کہ کیس منظر عام پہ آ گیا۔ ورنہ دنیا کیا کہے کہ کہہ کر آپ بہن دفن بھی کر سکتے تھے۔ کاش میں اس لڑکی کا کفن دے سکتی۔ مگر ثنا اللہ صاحب اسے شان کے ساتھ دفن کیجئے گا۔ کہ اس لڑکی نے اپنی جان دیکھ کر، نہیں معلوم کتنی لڑکیوں کے والدین اور بھائیوں کی آنکھیں کھولی ہیں۔ اس پھوپھی نے جان دے کر آپ کی اپنی بیٹیوں کے حوالے سے سوچ عیاں کی ہے۔ یہ نہ مرتی تو تشدد تو ثابت ہی نہیں ہو نا تھا۔ اس کے جسم کی ہڈیاں تک ٹوٹی ہوئیں ہیں۔ اس نے اتنا تشدد سہا ہے۔ لیکن آپ اور اس کے سسرال والے دونوں گھرانے اس موت کے ذمہ دار ہیں۔ دس سال کم نہیں ہوتے۔ دس سال آپ کو دنیا نے جو تمغے دیے وہ مبارک ہوں۔

آئیے آپ کو اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ سناتی ہے۔ ہمارے ایک بہت قریبی ملنے والے ہیں۔ ان کی بہن بھی غلطی سے کسی آپ کی بہن کے سسرال جیسے گھر میں بیاہی گئی۔ سرتاج نے پہلی رات سے ہی ذہنی تشدد شروع کر دیا۔ چند ماہ میں بات جسمانی تشدد تک آ گیا۔ ایک بھائی کہنے لگا۔ ابھی ایک ہی بیٹی ہے طلاق لے لو۔ میں پال لوں گا۔ دوسرا بھائی کہنے لگا اگر اس نے طلاق لی تو بھابیوں کے گھر کے برتن ہی مانجھے گی۔ باپ نے بیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے ”مجھے معاف کر دینا بیٹا، مجھے کیا خبر تھی۔ لڑکا ایسا نکلے گا، باپ چند ماہ بعد مر گیا۔ لڑکی بچی پیدا کر کے واپس اپنے متشدد شوہر کے پاس بھیج دی گئی۔ مکافات عمل دیکھئے جناب۔ عین بیس سال کے بعد ۔

جو بھائی کہتا تھا اس نے طلاق لی تو بھابیوں کے برتن مانجھے گی۔ اس کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ وہ بیاہ کر دوسرے شہر چلی گئی۔ شادی کی پہلی ہی رات اس کے شوہر نے اسے موبائل لے لیا۔ اور بلیڈ سے اس کے جسم کے حصے کاٹتا رہا۔ سگریٹ سے جسم پہ نشان لگاتا رہا۔ لہو بہتا تو وہ خوش ہو تا۔ ولیمے والے دن لڑکی نے دوپٹے کے اوپر شال سے ان نشانوں کو چھپائے رکھا۔ لڑکی کو والدین کے ساتھ نہیں بھیجا گیا۔ اور اگر کبھی فون آ تا تو شوہر اپنے سامنے بیٹھا کر اس کی والدین سے بات کرواتا۔ ایک ماہ یہ تشدد جاری رہا۔

کسی دن اس کو موقع مل گیا۔ لڑکی نے کام والی کے موبائل سے باپ کو فون کر کے بس اتنا کہا کہ مجھے آ کر لے جائیں اور رو پڑی۔ باپ دوڑا چلا آ یا۔ اسے خبر بھی نہیں کہ بیٹی کا کیا حشر ہو چکا ہو گا۔ دیکھ کر خود بھی دل برداشتہ ہوا ہارٹ اٹیک ہوا۔ اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ بیٹی کو چچا گھر لے آئے۔ بیٹا باپ کے ساتھ ہسپتال میں تھا۔ ہوش آتے ہی باپ نے پہلا سوال کیا کہ خلع کا دعوی کیا۔ ایف آئی آر کروائی۔ جو ہو چکی تھی۔ کیونکہ یہ وہ بھائی تھا جو بہن کو طلاق دلوا کر اس کی بیٹی پالنے کو تیار تھا۔ اب یہ لڑکی طلاق یافتہ ہے۔ اور اس کی پھوپھی آج بھی شوہر کے تشدد کا نشانہ بن رہی ہے۔

تو جناب یہ فرق ہو تا ہے بہن اور بیٹی کا مسٹر ثنا اللہ۔

یہ مسٹر ثنا اللہ استعارہ ہے ان بھائیوں کا جن کو بہن کا درد کبھی محسوس نہیں ہو تا تو فطرت ان کو بیٹی کے درد سے آشنا کر کے بتاتی ہے کہ جوانی کے مغرور غیرت مندو، وہ بھی کسی کی بیٹی تھی جس کو تم نے غیرت کے نام پہ قربان کیا ہے

دنیا کیا کہے گی۔ اب دنیا کو کہنے دیں۔ خدارا کہنے دیں۔

کل گھریلو تشدد کے حوالے سے لکھا گیا کالم پڑھنے کے بعد یہ سوال آ رہا ہے کہ اس کا حل بھی بتائیں۔ لیکن اس کے حوالے سے بعد میں

بات ہو گی ابھی سب استعاروں سے گزارش ہے کہ جناب اس بھائی کے رشتے کے حوالے سے اپنے گریبان میں جھانک لیجیے۔ آپ اپنی بہن اور بیٹی میں کتنا فرق کر رہے ہیں؟ کچھ مسئلہ تو یہی سے حل ہو جائے گا۔

جاؤ، قرۃالعین تمہیں اگلی دنیاؤں میں سکون ملے۔ اور جنت میں بھی اگر یہی شوہر لکھا ہے تو اپنے بھائی سے کہو کم از کم اب طلاق کے کاغذ ہی لے لے۔ اب اسے دنیا کچھ نہیں کہے گی۔ اب دنیا نے جو کہنا ہے تمہیں مثال بنا کر کہے گی۔ مگر اب یہ خاندان تمہارے حوالے سے پہچانا جائے گا۔ جو دنیا میں اپنے حوالے سے زندہ رہنا چاہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments