عید آئی خوشیاں لائی؟


عید آئی خوشیاں لائی مگر کس کے لیے؟ بہت سوں کے لیے۔ مثلاً مویشی قربان کرنے والے خوش ہیں کہ وہ سنت ابراہیمی ادا کرنے کے قابل ہیں۔ مویشی فروخت کرنے والے ان سے بھی زیادہ خوش ہیں کیونکہ ان کے جانور کی عام طور پر جو قیمت ہوتی ہے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ قیمت ان دنوں میں وصول کر لیتے ہیں۔ مویشیوں کا چارہ فروخت کرنے والے بھی بہت خوش ہیں کہ ان کا چارہ باقی نہیں بچتا اور ہاتھوں ہاتھ مہنگے داموں فروخت ہو جاتا ہے۔

قصائی بھی بہت خوش ہیں کہ ان کے جانور کاٹنے کی بکنگ کئی ہفتوں پہلے ہو جاتی ہے اور وہ اس کام کا نہ صرف منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ہیں بلکہ ہر جگہ سے ”جھونگے“ میں گوشت بھی وصول کر لیتے ہیں۔ ڈیپ فریزر اور فریج فروخت کرنے والے کیوں نہ خوش ہوں کہ اس تہوار پر ان کی اشیاء کے بغیر گوشت محفوظ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا وہ بھی اپنے دام بڑھا لیتے ہیں اور ان اشیاء کی مرمت کرنے والے بھی خوش ہوتے ہیں کہ وہ اپنی محنت کا زیادہ معاوضہ وصول کر سکتے ہیں۔

یو پی ایس، بیڑی، شمسی پلیٹ اور جنریٹر فروخت کرنے والے بھی بہت خوش ہیں کیونکہ ان چیزوں کے بغیر گوشت ایک دن کے لیے بھی محفوظ نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ واپڈا کی بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے اور ولٹیج بھی کم ہوتا ہے تو ان کی ان اشیا کے بغیر گوشت محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ چھریاں، ٹوکے فروخت کرنے اور ان کو تیز کرنے والے بھی بہت خوش ہیں کہ ان کی چھریوں کے بغیر قربانی کی رسم اداء نہیں کی جا سکتی۔ بازار میں کپڑے، جوتے اور عید کا دیگر سامان اور عام اشیا فروخت کرنے والے بھی خوش ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے دام بڑھا لیتے ہیں۔ پٹاخے، غبارے اور بچوں کی اس طرح کی دلچسپی کی اشیا بیچنے والے بھی بہت خوش ہیں کیونکہ ان اشیا کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ درزی بھی کپڑے سینے کے دام بڑھا لیتے ہیں اور منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ سبزی، ٹماٹر پیاز فروخت کرنے والوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے کہ ان کے دام کئی ہفتے پہلے بڑ ہا دیے جاتے ہیں۔

اس سارے تہوار میں کوئی غم کا پہلو بھی ہے؟

ہاں ہے کیونکہ اس معاشرے کے تمام افراد تو ایسا کام نہیں کر رہے۔ غم کا پہلو یہ ہے اس معاشرے میں ”استانی راحت“ جیسے لوگ بھی ہیں جو نہ صرف یہ اشیا خود خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے بلکہ دوسروں سے بھی یہ اشیا نہیں لے سکتے۔ یہ پہلی ”حرفی“ ہے۔

”حرفی“ کی تعریف یہ ہے کہ سنء نوے کی دہائی کی ابتداء میں، مرحوم افتخار قیصر پشاور مرکز سے اردو اور ہندکو زبان کا ایک طنزیہ پروگرام کرتے تھے جس کا نام تھا ”دیکھدا جاندا رہ“ یعنی دیکھتے ہی چلے جاؤ۔ یہ طنزو مزاح کے خاکوں کا پروگرام تھا۔ اس کے ایک حصے میں وہ کہتے کہ ”اب میں بولوں کہ نہ بولوں“ ؟ ، پس منظر سے آوازیں آتیں کہ ”بولو بولو“ ۔ تو وہ کہتے ”یہ پہلی حرفی ہے“ اور اس طرح حرفیاں کہتے جاتے اور گنواتے جاتے۔ یہ پی ٹی وی پشاور مرکز کا کلاسک پشتون مزاج کا حامل طنزو مزاح کا پروگرام تھا۔ افسوس کہ آج اس کی ویڈیوز بھی دستیاب نہیں ہیں۔

رہ گئی گوشت کی بات۔ آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ گوشت کے تین حصے ہوتے ہیں ایک اپنا، دوسرا رشتہ داروں اور تیسرا ناداروں کا۔ اب جو لوگ قربانی کرتے ہیں ان کے بیشتر عزیز رشتہ دار بھی قربانی کرتے ہیں چنانچہ ان کو گوشت دینے کا فائدہ نہیں ہوتا کہ وہ خود اس چیز سے اتنا مالا مال ہوتے پیں کہ ان سے وہی ختم نہیں ہو پاتا۔ یہ دوسری ”حرفی“ ہے۔ غریبوں میں تقسیم ہونے والا حصہ بھی پوری طرح غریبوں میں تقسیم نہیں ہو پاتا کیونکہ پہلے وقتوں میں لوگ گھروں کے باہر قربانی کر کے وہیں کھڑے کھڑے غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ آج لوگ گوشت گھروں کے اندر لے جاتے پیں، اچھا حصہ اپنے لیے رکھتے ہیں۔ غریبوں کو گھروں کے باہر کھڑا کر کے چند بوٹیاں بانٹ دیتے ہیں۔ یہ تیسری ”حرفی“ ہو گئی۔

یہ ساری خوشیاں پیسوں سے خریدی گئی خوشیاں ہوتی ہیں کیونکہ جو ان اشیاء کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ ان خوشیوں میں شریک نہیں ہو پاتا بلکہ اس کے یہ دن غم کی نوید لے کر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عید پر ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کسی غریب مزدور نے بچوں کو عیدی یا کپڑے دینے کی سکت نہ ہونے پر خود کشی کر لی۔ یہ چوتھی ”حرفی“ ہو گئی۔

یہ آسان سا تہوار ہے یعنی قربانی کر کے اسی دن گوشت بانٹ دیا جائے مگر جیسے پاکستانی ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جیت میں سے ہار نکال لیتی ہے، اسی طرح لوگوں نے بھی اس سادہ سے تہوار کو شاہ خرچیاں کر کے اپنے اور دوسروں کے لیے پیچیدہ بنا لیا ہے۔ یہ پانچویں ”حرفی“ ہو گئی۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اتنی حرفیاں گنوانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں کہ جو عید کے دن چاہتے ہوئے بھی نہ صرف گوشت نہیں کھا سکتے بلکہ نئے کپڑے، جوتے، اور دیگر اشیا بھی نہیں خرید سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ پوری دنیا میں پرانی اور بے کار اشیاء غریبوں کی مدد کے نام پر خریدی جاتی ہیں اور اپنے نام کی تشہیر کرائی جاتی ہے لیکن اس کی بجائے یہیدان پیسہ سیدھا غریبوں کی فلاح کے لیے کیوں خرچ نہیں کر دیا جا تا۔ یہ معاملہ کم از کم ہماری سمجھ سے باہر ہے اور اس پر ہمیں ایک مشہور گانے کا شعر یاد آ رہا ہے

گنگا رام کی سمجھ میں نہ آئے
تو اپنا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
تمام قارئین کو ہماری طرف سے عید کی دلی مبارکباد ہو۔
اگر کسی کی دل شکنی ہوئی ہو تو معذرت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments