وہ چٹان صفت سا ایک شخص
(منیر احمد فردوس)
شہر سے امن کی تمام فاختاﺅں کو یرغمال بناکرچاروں طرف دہشت کی فصیل کھڑی کر دی گئی تھی اور خوف کا دیو ہیکل عفریت اپنے پنجےشہر بھر میں گاڑ چکا تھا۔ لوگ ڈر کے مارے سہم گئے تھے اور کاروبارِ زندگی مفلوج ہوچکا تھا۔ دہشت کے لشکر گلی کوچوں میں دندناتے پھر رہے تھے اور زندگی سانسوں کی بقا کے لیے چھپتی پھر رہی تھی۔ دوسرے لوگوں کی طرح شہر کے اہلِ قلم بھی خوف کے مارے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ شہرسرِ شام ہی شہرِ خاموشاں کا نظارہ پیش کرنے لگتا تھا۔ شاید تمام لوگ اس دہشت ناک منظر میں اسیری کا سمجھوتا کر چکے تھے مگر بھرے شہر میں ایک جواں ہمت نوجوان ایسا بھی تھا جو اس خوف ناک منظر میں سانس نہیں لینا چاہتا تھا۔ قلم قبیلے کا وہ تازہ فکر شاعر شہر اور لوگوں کے دلوں پر لفظوں کی حکم رانی کا خواہش مند تھا۔ شہر کی اس وحشت ناک صورتِ احوال نے اس کے اندر شدید بے چینی بھر دی تھی اور وہ ہر صورت شہر پر چھائی دہشت کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا تھا۔ اُس کے خیال میں ادیب حالات سےمتاثر نہیں ہوتا بل کہ وہ اپنے قلم سے حالات کو متاثر کرتا ہے۔ یہی منشور لے کر وہ میرے پاس آیا تھا۔
اس نے کہا تھا کہ ”میں ہر اتوار کو ایک مقامی اخبار کے دفتر میں جاتا ہوں جہاں شہر کے کچھ اور شاعر بھی آتے ہیں اور ایک چھوٹی سی نشست ہوتی ہے، تم بھی آیا کرو۔“
پہلےتو میں نے خراب حالات کے پیشِ نظر ٹال مٹول سے کام لیا مگر اس کی تڑپ اور فکر نے مجھے آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ آنے والی اتوار کو میں بھی اس محفل کا حصہ تھا۔ جہاں کچھ سینئرشعرا موجود تھے۔ پھر اس نوجوان کی کوششوں سے وہاں ہر اتوار کو شعرا کی تعداد بڑھنے لگی۔ جب تقریباً شہر بھر کی ادیب برادری اس چھوٹی سی جگہ میں پوری طرح سما گئی ہے تو اس نوجوان کی تجویز ہی پر اس اکٹھ کو ڈیرہ رائٹرز گلڈ کا نام دے کر ایک ادبی پہچان دے دی گئی تھی۔ میں اس کے جذبے اور کوششوں پر دم بخود تھا کہ کس طرح سے اس نے جنگل میں منگل کردکھایا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے اس باکمال نوجوان کا نام نور احمد ناز تھا۔ جس پر صرف ناز ہی کیا جا سکتا ہے۔ گردن تک غربت کی دَل دَل میں دھنسا ہوا وہ ایک سچا اور کھرا تخلیق کارتھا۔ جس کا اوڑھنا بچھونا صرف ادب تھا اور وہ ہر وقت ادبی تحرک چاہتا تھا۔ جمود اس کی نظر میں تخلیق اور تخلیق کار کی موت تھی۔ وہ ایسا دلیر انسان تھا کہ ایک ہی وقت میں دو دو محاذوں پر لڑ رہا تھا۔ یعنی ادبی اور غریبی کا محاذ۔ اور دونوں محاذوں کا وہ ایک فاتح انسان تھا۔
میری اس سے پہلی ملاقات شاید 1999ء میں ہوئی تھی اور اس ملاقات کا سہرا شہر کے ادبی منظر نامے میں ہلچل مچا دینے والا میرا ایک مزاحیہ شخصی خاکہ تھا، جو کہ مرحوم پروفیسر نذیر اشک صاحب پر لکھا گیا تھا۔ جب وہ مجھ سے ملا تو میرے اس شخصی خاکے کے قصیدے بھی گاتا جاتا اور مسکراتا بھی جاتا تھا۔ اس وقت محلہ ٹوئیاں والا میں اس کی ٹافیوں کی چھوٹی سی دُکان تھی، جہاں بیٹھ کر وہ سانسوں کی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف رہتا تھا۔ میں جب بھی اس کی دُکان پر جاتا تو وہ ہمیشہ ایک مخصوص مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا کرتا تھا۔ وہ وہاں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھتا اور لکھتا بھی رہتا تھا اور اکثر وہ اپنا تازہ کلام بھی سنا دیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ نور احمد ناز کے مالی حالات ایسے ہیں کہ وہ بے چارہ روز کنواں کھودتا ہے اور روز پانی پیتا ہے۔ مگر اس کے چہرے کا اطمینان اورخود اعتمادی دیکھنے والے کو مغالطے میں ڈال دیتی تھی کہ اتنا اچھا لکھنے والا تازہ فکر شاعر غربت ایسی دَل دَل میں بھی دھنسا ہوا ہو سکتا ہے۔
پھر اکثر اس سے ملاقاتیں رہنے لگیں۔ زیادہ تر شام کے بعد شہر کے معروف ہوٹل جمیل پر خوب محفلیں جمنا شروع ہو گئی تھیں،جہاں کچھ نوجوان ادیب جمع ہو جاتے تھے۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ نور احمد ناز اپنی ذات میں بہت متین، سنجیدہ اور کم گو انسان تھا، جس کے مزاح میں بھی کافی سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ ہوٹل پر ہونے والی خوش گپیوں سے وہ بس محظوظ ہوتا رہتا اور ہنستا رہتا تھا۔ شاید یہ 2000ء کی بات ہے جب ہوٹل ہی پر نور ناز اور نوجوان نظم گو شاعر خوشحال ناظر نے مل کر قاصر ادبی فورم کا خواب دیکھا تھا اور جب سینئرز سے صلاح مشورہ کیا تو اس کے قیام کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے قاصر ادبی فورم جیسی ملک گیر ادبی تنظیم کا کام یاب اجرا ہو گیا، جس کا وہ جنرل سیکرٹری بھی رہا۔ اس فورم کے قیام کے بعد شہر میں ایک ایسا خوب صورت ادبی کارواں ترتیب پا گیا، جس سے شہاب صفدر، طاہرشیرازی، سعید اختر سیال، کرنل خالد اور خورشید ربانی جیسے شعرا نے ملکی سطح پر اپنی پہچان بنائی اور اس شہرت کی جڑیں نور ناز کے دِل کی زمین ہی میں کہیں پیوست تھیں، جہاں سے قاصر ادبی فورم کا خمیر اٹھا تھا۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے قاصر ادبی فورم نے اوپر تلے کئی بڑے بڑے ادبی معرکے سر کیے۔
اتنا سنہری اور خوب صورت دور دیکھنے کے بعد یک لخت ہی منظر بدل گیا تھا۔ قاصر ادبی فورم کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ کچھ اندرونی خلفشار اور ملکی سطح پر ہونے والی ایک سازش سے قاصر ادبی فورم ٹوٹ پھوٹ گیا تھا، جس کے غم نے نور ناز کو بہت غم زدہ کر دیا تھا اور ہوٹل پر جمنے والی محفلوں کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔ پھر کبھی کبھار وہ اور میں چہل قدمی کرتے کرتے چھوٹے بازار میں واقع ایک ہوٹل پر چائے پینے جایا کرتے تھے، جہاں بیٹھ کر خوب باتیں ہوتی تھیں۔ قاصر ادبی فورم کے ٹوٹنے کا اسے بہت دکھ تھا، جس کا وہ اکثر ذکر کیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور دکھ بھی اس کے اندر تک اتر چکا تھا جب کل پاکستان مشاعرہ میں اسے پڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا جس میں احمد فراز، شہزاد احمد اور محسن احسان جیسے نامی گرامی شعرا نے شرکت کی تھی اور اس دکھ نے مرتے دم تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ مگر میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ ٹوٹ کے بکھرنے والا انسان نہیں تھا۔ میں اس کے حوصلے اور جذبے کی جواں مردی پر حیران تھا۔ میں نے اس میں یہ خوبی دیکھی کہ وہ مشکل حالات میں اور بھی ڈٹ کر کام کرنے کا عادی تھا۔
وہ ادب کی خدمت کے کچھ اور ہی راستے کھوجنے میں لگا ہوا تھا۔ اس دوران او سی ایس جیسی عام سی ایک کورئیر سروس میں اس کی نوکری لگ گئی تھی۔ مشکلات میں گھر کر حالات سے لڑائی لڑنے والا نور ناز جب اس کوریئر کمپنی میں داخل ہوا تو اس وقت اس سروس کمپنی کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ شاید وقت نے بھی یہ فیصلہ لکھ دیا تھا کہ عام سی اِس کوریئر سروس کی شہرت کی جنگ صرف نور ناز ہی لڑسکتا تھا۔ اسے شکست دینے آسمانوں سے گرم موسموں کے لشکر اترے مگر وہ بھی اس کی ہمت کے گواہ بن گئے۔ جب نورناز شدید گرمی کے دنوں میں بھی پسینے میں شرابور کالا بیگ لٹکائے سائیکل چلاتا شہر کے مختلف کونوں میں دکھائی دینے لگا۔ میرا اور اس کا کبھی کبھار ٹکراﺅ ہوجاتا تو وہ عجلت میں ایک ہلکی سی مسکراہٹ میری طرف اچھالتا ہوا آگے نکل جایا کرتا تھا۔ وہ بلا کا محنتی انسان تھا اور شہر بھر کی سڑکیں وہ فضول میں نہیں ماپ رہا تھا، حقیقیت میں وہ او سی ایس کوریئر سروس کی کام یابی کا نقشہ ترتیب دینے میں لگا ہوا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ اس کی ان تھک محنت رنگ لائی اور او سی ایس جیسی معمولی کوریئر کے لیے اس نے ایسا کام یاب نقشہ ترتیب دے ڈالا کہ ٹی سی ایس اور لیپرڈ کوریئر جیسی کام یاب سروسز کے ساتھ او سی ایس کا نام بھی لیا جانے لگا۔
اس دوران اس کی ادبی پیاس اور بھی بڑھ گئی تھی۔ وہ ایک ادبی رسالہ شروع کرنے کا سوچ رہا تھا، اور وہ یہی خواہش لے کر میرے پاس آیا تھا۔ میں اس کی بات سن کر حیران سا اسے دیکھنے لگا۔ میں نے پوچھا کہ ”نور یار! یہ سب کس طرح کرو گے؟ اس پر تو بہت خرچہ آتا ہے، کیا تمہارے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں؟“
اس نے کہا ”منیر! تم اس کی فکر مت کرو۔ بس تم میرا ساتھ دو۔“
اس کےجذبے اور ارادوں پر سوائے حیران ہونے کے میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ جیسا سوچ لیتا تھا، کر گزرتا تھا، چاہے کوئی اس کا ساتھ دیتا یا نہ دیتا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کوششں اور لگن سے برگِ نو جیسے ادبی جریدے کا کام یاب اجرا ہو گیا تھا اور وہ شاعر کے ساتھ ساتھ اب مدیر بھی بن چکا تھا۔ برگِ نو کے غالباً وہ تین شمارے کام یابی کے ساتھ لے آیا تھا۔
اس کا معاملہ بھی بہت عجیب تھا۔ وہ جوں جوں کام یابی کا زینہ چڑھتا جاتا تھا، کٹھنائیاں اور دشواریاں اسے ڈھونڈنے لگتی تھیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ شاید تیسرے شمارے کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ وہ ایک بڑے حادثے سے دوچار ہو گیا۔ اس کا بزرگ علیل باپ اپنی ذمہ داریوں کی گٹھڑی اس کے مضبوط کاندھوں پر ڈال کر خود اس دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو گیا تھا۔ اِس حادثے نے نور ناز کو اندر سے ہلا کر پھر سے زیرو پوائنٹ پر لا کے ضرور کھڑا کر دیا تھا مگر وہ ٹوٹا نہیں تھا۔ ایسا مضبوط انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ ٹھوکر کھا کر مسکرا دیا کرتا تھا۔ اپنے چہرے سے، باتوں سے، اپنی چال ڈھال سے اس نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کیسی کیسی مشکلات میں ہر وقت پھنسا رہتا ہے۔ اس نے اُف نہ کرتے ہوئے قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ اپنے باپ کی ذمہ داریوں کی گٹھڑی اٹھائی اور زندگی کی ڈگر پر پھر سے خوشیوں کی تلاش میں چل پڑا۔
اس کی زندگی بھی عجیب تر تھی، جو پتا نہیں کہاں کہاں سے اس کے لیے نت نئے امتحان ڈھونڈ کر لے آتی تھی اور نور ناز کا حوصلہ بھی کمال کا تھا کہ جس نے زندگی سے کبھی بھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کی تھی۔ وہ اسے اپنی خود داری اور مسکراہٹ سے شکست دینے کا ہنر جانتا تھا۔ باپ کا سایہ چھننے کے بعد ایک اور کڑا امتحان اس کا منتظر تھا۔ اس کی کوریئر سروس میں اس کے کچھ مخالفین اس کے خلاف ایک منظم سازش ترتیب دے چکے تھے، جس کے نتیجے میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے۔ ایک بار پھر وہ بے روزگاری کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا تھا۔ یہ دور اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ جس نے اس کے ہاتھ سے قلم چھین کر گارہ اور اینٹیں تھما دی تھیں۔ وہ محنت مزدوری کرنے لگا تھا۔ زندگی نے اسے جس منظر میں کھڑا کیا، اس نے سرِ تسلیم خم کیا۔ وہ ایسا شاکر اور تابع انسان تھا کہ اس نے زندگی کے دیے ہوئے کسی بھی منظر سے انکار نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی تین چھوٹی بہنوں اور بوڑھی ماں کا اب واحد سہارا ہے۔
اس کی بہنوں نے اپنی آنکھوں میں امیدوں کے کچھ جہان بنا رکھے تھے، جنہیں نور ناز بھانپ چکا تھا۔ اس لیے وہ چپ چاپ زندگی کی انگلی تھامے بس چلا جا رہا تھا، وہ جہاں جہاں اس کو لیے جا رہی تھی۔ اپنے گھر والوں پر وہ خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ پھر ایک بار سرِ راہ ملاقات کے دوران مجھے اس کی زبانی معلوم ہوا کہ اس نے اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ باہر سے سامان لا کر بیچا کرتا تھا۔ کبھی کبھار آتے جاتے راستے ہی میں نور ناز سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ اس دوران میری نظموں کی کتاب چھپی تو میں اسے بطورِ خاص اپنی کتاب دینے گیا۔ وہ جپھی ڈال کر بہت پرتپاک انداز میں ملا۔ میری کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بار بار ان گنت مبارکیں دیں۔ ایک بند دُکان کے تھڑے پر کافی (بہت) دیرتک بیٹھ کر ہم نے گپ شپ لگائی۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی کتاب چھپوانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا، جس پر میں نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس دوران دو تین بار وہ میرے دفتر بھی آیا تھا اور ایک بار عورت کے موضوع پر لکھی ہوئی نظم بھی مجھ سے کمپوز کروانے آیا تھا، جو آج بھی میرے کمپیوٹر میں محفوظ ہے۔
پھر نظم گو شاعر خوشحال ناظر اور نور ناز ہی کی کوششوں سے ستارہِ ادب فورم کا قیام عمل میں آ گیا تھا اور نور ناز کو فورم کا نائب صدر نام زد کیا گیا تھا، مگر کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر آنا جانا اسے ادبی سرگرمیوں سے دور لے گیا۔ مشاعروں میں اس کی شرکت بہت کم ہو گئی تھی اورمیں اس کی کمی شدت سے محسوس کرتا تھا، جس کا اظہار میں اکثر خوشحال ناظر سے کیا کرتا تھا۔ اور پھراچانک اس کے گردوں کی بیماری کی خبر بجلی بن کر گری۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بیماری خطرناک حد تک بڑھ گئی اور اسے اسلام آباد جیسے منہگے ترین شہر میں علاج کے لیے جانا پڑا۔
جب میں نے نور ناز کو فون کیا تو اس کی چھوٹی بہن نے فون اٹھایا مگر وہ بات کہاں کر رہی تھی، وہ تو رو رہی تھی اور بس روتی جارہی تھی،اس کی بیماری کی وجہ سے وہ غم سے اتنی نڈھال تھی کہ اس سے بات تک نہیں ہو پا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے صرف اتنا کہا کہ منیر بھائی! نور بھائی کے لیے دعا کرو، اس کی حالت بہت خراب ہے۔ میں نے فوراً اس کی بیماری کی خبر فیس بک پر لگائی اور دوستوں سے دعا کی گذارش کی۔ ساتھ ہی اسلام آباد میں مقیم اپنے دوستوں حمزہ حسن شیخ اور خورشید ربانی سے گذارش کی کہ وہ جا کر نور ناز کی خبر گیری کریں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس کی حالت پہلے سے بہ تر ہے۔ کچھ دنوں بعد میں نے نور ناز کو فون کیا تو اس نے خود بات کی۔ اس کی آواز سن کر مجھے بہت تسلی ہوئی۔ میں نے اسے کہا کہ نور یار، کسی بھی چیز کی ضرورت ہو، مالی امداد یا کچھ بھی تو بلا جھجھک مجھے کہنا، مجھ سے جو بن سکے گا، ضرور کروں گا۔ مگر میں اس کی خود داری اور اس کے مضبوط اعصاب پر حیران ہوا جا رہا تھا۔ وہ اپنے لہجے سے کہیں سے بھی شکستہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ بس اس نے بار بار یہی کہا کہ منیر بھائی! مجھے صرف دعا چاہیے، پلیز میرے لیے دعائیں کرتے رہنا۔ اس کے بعد بھی ایک دو بار اس سے فون پر بات ہوئی، اس نے بدستور دعاﺅں کی درخواست کی۔ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ ستارہِ ادب فورم کے پروگراموں میں اس کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ پھر پتا چلا کہ نور ناز اسلام آباد سےعلاج کروا کے گھر لوٹ آیا ہے۔
وہ جاڑے کی ایک سرد شام تھی، جب میں اس سے ملنے اس کے گھر گیا۔ وہ رضائی اوڑھے ہوئے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ اس کی قمیص کی ایک دو جگہوں پر خون کے معمولی دھبے دکھائی دے رہے تھے اور کم زوری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ نقاہت کی وجہ سے کبھی کبھی ٹوٹ جاتا تھا۔ مگر میں اس باہمت اور حوصلہ مند انسان کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کی باتوں سے، لہجے سے اور حرکات و سکنات سے شائبہ تک نہیں ہوا کہ وہ آپریشن جیسے مراحل سے گزر کر آیا ہے اور ایک جان لیوا بیماری سے زندگی موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بل کہ اس کا موضوع وہی ادب تھا۔ مجھ سے بار بار معذرت کرتا رہا کہ میں نائب صدر ہونے کے باوجود فورم کے پروگراموں میں شرکت نہیں کر پا رہا ہوں۔ کہت اتھا ”منیر یار! میں ایک بار ٹھیک ہو جاﺅں پھر دیکھنا کہ ستارہِ ادب کا ستارہ کہاں کہاں چمکتا دکھائی دے گا۔“ میں اس کی باتیں سن کر اور اس کے ارادے دیکھ کر حیران تھا۔ پھر کچھ ہفتوں بعد ایک دن میں دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مجھے سرائیکی شاعر سعید اختر سیال کی طرف سے ایک ایس ایم ایس ملا کہ نور ناز کو ڈائیلائسز کے لئے دو بوتل خون کی اشد ضرورت ہے۔
میں نے فوری طور پر خون کے عطیہ کے لیے ایک میسج بنا کے فورم کے سب ارکان کو بھیج دیا اور دوستوں کے جواب کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ مگر انتظار طول پکڑتا چلا گیا اور چاروں طرف دل دکھا دینے والی خاموشی چھائی رہی۔ کسی دوست کی طرف سے کوئی بھی جواب نہ آیا۔ شاید کسی نے بھی کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ سوائے ایک ممبر کے کہ جس نے معذرت کے ساتھ لکھا تھا کہ اس کا خون مطلوبہ گروپ سے میل نہیں کھاتا۔ اس مایوسی نے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا اور میں فوراً دفتر بھاگا۔ دفتر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے نور ناز کو فون کر کے پوچھا کہ خون کا بندوبست ہوا کہ نہیں؟ تو اس کی نحیف اور نہایت مایوس آواز میرے کانوں سے ٹکرائی کہ ابھی کوئی بندوبست نہیں ہوا۔
میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ نور گھبراﺅ مت، خون کا بندوبست ابھی ہو جائے گا۔ میں نے اپنے دفتر میں کوششیں شروع کر دیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد مجھے میرے دفتر میں تین دوست مل گئے جن کا مطلوبہ گروپ تھا اور وہ خون دینے کے لیے بھی تیار تھے۔میں نے فوراً نور ناز کو فون کال کی تو اس وقت وہ گھر سے ہسپتال کے لیے نکل رہا تھا۔ اس نے کہا کہ صرف ایک بوتل خون کا بندوبست ہوا ہے اور ایک کی اب بھی ضرورت ہے۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ”نور! پریشان نہ ہو،تمام بندوبست ہو گیا ہے۔“ اس کے بعد میں نے فوراً اپنے ایک دوست کو خون کے لیے اسپتال بھیج دیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو نور خود اس سے ملا اور کہا کہ بھائی دو بوتل خون کا انتظام ہو گیا ہے اور میری طرف سے منیر کا شکریہ ادا کر دینا۔
ڈائیلائسز کے ایک دن بعد میں نے نور ناز کو میسج کر کے طبیعت پوچھی تو اس نے کہا کہ میں اب کافی بہتر ہوں۔ مجھے بڑی تسلی ہوئی۔ اس دوران نادک سائنس کالج میں ہونے والے مشاعرے میں اس کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔ اس کی بیمار پرسی کے لیے میں کسی مناسب وقت کی تلاش میں تھا۔ 14 جنوری2013ء کومیں اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھا ۔ صبح 10 بجے سعید اختر سیال کی طرف سے ایک میسج موصول ہوا۔ میں نے معمول کا میسج سمجھ کرجب موبائل پر نظر ڈالی تو یک بارگی میرا دل زور سے دھڑکا اور میری آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا۔ مجھے اس میسج پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ میسج ایک بار پھر پڑھا، پھر پڑھا، پھر پڑھا، مگر اس کا ایک ہی متن تھا کہ نوراحمد ناز اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔
میرے اندر ہلچل سی مچ گئی اور میں نم آنکھوں کے ساتھ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اچانک میرا موبائل بج اٹھا۔ نم ناک آنکھوں سے دیکھا تو نور ناز کا نمبر جھلملا رہا تھا۔ میں نے حیران ہو کر فوراً فون اٹینڈ کیا مگر خدا کی پناہ اس کے گھر جو کہرام مچا ہوا تھا، میرا اندر کا کہرام اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی چھوٹی بہن فون پر دھاڑیں مار مار کے روتی جا رہی تھی۔ میں نے کئی بار اپنی لرزتی آواز میں ہیلو ہیلو کہا مگر وہ تو اپنے ہوش کھو چکی تھی۔ میرے حواس بھی جواب دینے لگے۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں غم سے نڈھال اس روتی دھوتی اپنی معصوم بہن سے کیا بات کروں؟ کیسے اسے تسلی دوں؟ اس نے روتے ہوئے مجھ سے صرف اتنا کہا: ”منیر بھائی! ہمارا شہزادہ فوت ہو گیا ہے۔“ اس کے بعد فون بند ہو گیا۔ مگر مجھے میری کوئی خبر نہیں تھی کہ میں کہاں ہوں۔ میں اپنے حواس میں نہیں تھا۔ جب ہوش آیا تو میری آنکھیں بھری ہوئی تھی اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوٹےدل کے ساتھ نور ناز کی وفات اور جنازے کا میسج تیار کر کے سب دوستوں کو بھیج دیا۔ سائنس کالج میں رات 9 بجے برستی آنکھوں کے ساتھ اس کا آخری دیدار کیا۔ اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابدی نیند سویا ہوا ہے، اس کے چہرے کا سکون اور اطمینان بتاتا تھا کہ وہ بس ابھی اٹھ بیٹھے گا۔
ڈوبتے دل کے ساتھ اس عظیم اور خوددار انسان کی نمازِ جنازہ ادا کی اور اسے زمین کے سپرد کر کے خود اداسیوں کے قافلے کے ہم راہ گھرلوٹ آیا۔
اے ناز! ہمیں آپ کی خدمات اور ادب پروری پر ہمیشہ ناز رہے گا۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور خاص طور سے آپ کے گھر والوں کو صبر جیسی عظیم دولت نصیب کرے جو آج بھی آپ کی جدائی کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔
آخر میں نور احمد ناز کے لیے لکھی گئی اپنی ایک نظم تمام دوستوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
یادوں کا مسافر
(نور احمد ناز کی ناگہانی موت پر)
وہ چٹان صفت سا ایک شخص
جس کی آخری سانس تک
اس کے پاﺅں کے نقش کے لیے
دشوار راستے اسے کھوجتے رہے
مگر کٹھنائیوں کے ان گنت لشکر
اُس کے حوصلوں کی فلک بوس دیوار سے خائف
بے سود سر پٹختے رہے
اور پاش پاش ہوتے رہے
ناز کمانے کا عادی وہ دلیر شخص
خاموشیوں کی زرہ پہن کر
زندگی کے محاذ پر تنہا لڑتا رہا
وقت کے دامن پر
وہ اپنی شجاعتوں کی اتنی طویل داستان لکھ گیا
کہ جسے پڑھتے پڑھتے
زندگی کی سانسیں بھی کم پڑ گئیں
وہ ایسا فاتح بن کر اپنے اندر سے رخصت ہوا
کہ اجل بھی ہاتھ ملتے رہ گئی۔
- قدیم دور کی جدید محبت کی کہانی - 01/04/2017
- عید گاہ: معصوم پوتے اور بوڑھی دادی کی پریم چند کہانی - 06/03/2017
- میرے گھر کا پتا (عزیز فیصل)۔ - 02/03/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).