ناک بیتی


میں ہوں انسانی چہرے پہ واقع بے چاری ایک عدد، تن تنہا، اکیلی ناک۔ نہ جانے مجھ سے یہ سلوک کیوں روا رکھا گیا حالانکہ میرے پڑوس میں سبھی جفت میں موجود ہیں جیسے کہ دو ہونٹ، دو آنکھیں، دو کان وغیرہ۔ یوں تو مجھ سے سانس لینے کا کام مقصود تھا پر اب نہ جانے کون کون سے مسائل میں میری جان الجھ کے رہ گئی ہے۔ جہاں تک مجھے شک پڑتا ہے یہ سب کیا دھرا اردو زبان کا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے ناں کہ اردو زبان کے آنے سے پہلے تو میں کسی نہ کسی طرح ناک اٹھا کے چل لیتی تھی مگر جب سے میں ان اردو بولنے والوں (بالخصوص پاکستانیوں ) کے ہتھے چڑھی ہوں انہوں نے تو میری ’ناک میں دم‘ کر رکھا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے وہ کیسے تو وہ ایسے کہ:

میں اگر کسی بچے کے چہرے پہ موجود ہوں اور ’بہنا‘ شروع کر دوں تو سیاپا، سب میری وجہ سے اس بچے کو چھیڑنے لگ جاتے اور اگر اس کے برعکس کبھی خود کو ’بند‘ کر لوں تو الگ سے ہنگامہ، میں آخر جاؤں کہاں؟ یہی میں اگر کسی لڑکی کے چہرے پہ نصب کر دی جاتی ہوں تو ان لوگوں کی حالت چیک کریں کہ رشتہ کے لیے لڑکی دیکھنے جاتے ہیں تو وہاں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے کہ جی لڑکی کی ’ناک باریک، تیکھی، کھڑی‘ ہونی چاہیے۔ اور مجھے خواہ مخواہ بیچ میں ڈسکس کر کے نہ بول آتے ہیں۔ لہٰذا جب تک مجھے رگڑ نہ لیں، انہیں چین نہیں پڑتا۔ اسی طرح میں اگر کسی غریب کے ہاں پیدا ہوتی ہوں تو مجھ سے ’ناکوں چنے چبوائے‘ جاتے ہیں چاہے مجھے کسی جائز کام کے لیے ہی سرکاری دفاتر کا رخ کیوں نہ کرنا پڑے۔

یہ بھی سن لیجیے۔ اگر آپ کو کبھی ’موم کی ناک‘ کو قریب سے دیکھنے کا موقع نہ ملا ہو تو کبھی معطل ہوتے تو کبھی یکسر منسوخ ہوتے پاکستانی آئین (و قانون) کو ہی دیکھ لیجیے۔ میں تو دنیا بھر میں اپنا منہ چھپاتی پھرتی ہوں مگر ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک اور قصہ ملاحظہ ہو، حال ہی میں کووڈ ٹیسٹ کے لیے حلق سے لیے جانے والے سیمپلز سے اچھا خاصا کام چل رہا تھا کہ ان سر پھرے ’سینس دانوں‘ نے لچ فرائی کیا کہ جب تک مجھ پہ ’بیٹھی مکھی نہیں اڑا لی جاتی‘ کام نہیں بنے گا۔

اور تو اور ایک ’اسپیشل‘ قسم ان پاکستانی مردوں کی ہے جن کی ساری کی ساری عزت کا بوجھ مجھ غریبنی پہ ہے۔ کوئی مسئلہ کہیں ہو جائے تو مجھے ’کاٹنے کٹوانے‘ کی باتیں سر اٹھا لیتی ہیں۔ میرا سر شرم سے جھک جاتا پر مجال ہے جو ان کو ذرا بھی شرم آتی ہو۔ اور کچھ تو یہاں ایسے تحفے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں چاہے کوئی بھی ناک نہ لگاتا ہو وہ بھی ہر جگہ مجھے ’گھسیڑنے‘ کے چکر میں ہوتے ہیں۔

اب یہ مذکورہ بالا سارے دھندے میری ذاتی ’ناک کے نیچے‘ ہوتے ہیں مگر مجال ہے جو آج تک میرے ’ناک بھوں چڑھانے‘ کے باوجود بھی کسی نے مجھے لفٹ کروائی ہو یا مجھے تسلی دلاسا دیا ہو۔ اب آپ ہی بتائیے، یہ بے چاری ناک کیسے اس گھٹن کے ماحول میں سکھ کا سانس لے سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments