زندگی میں سکون چاہیے؟ تو پھر الٹی گنگا بہائیے!


جس بڑی تعداد میں لوگ آج کل نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، اس کی مثال نہیں۔ لوگ دماغی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد ہر بڑھتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس بارے میں بہت کام ہو رہا ہے۔ آگہی مہم چلائی جا رہی ہیں، تقریباً ہر میڈیم پر علاج، مشورے، وجوہات اور سد باب کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں۔ لوگ اب پہلے سے زیادہ Mental Health یعنی دماغی صحت کے بارے میں جانتے ہیں۔ علاج کروانے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

ہر دوسرا مرد، عورت حتی کے بچے بھی ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے ہیں۔ اپنے آس پاس نظر ڈالیں اور دیکھیں تو جو پتھر اٹھاؤ اس کے نیچے سے ایک دکھیاری ماں، غمزدہ ساس، مظلوم بہو اور بے چارہ شوہر نکلتا ہے۔ گھر گھر کے حساب سے کردار بدل بھی سکتے ہیں لیکن نوعیت میں کوئی انیس بیس کا ہی فرق ہوگا۔ گھر کے گھر ڈپریشن کے مریض ہیں جس کی واحد وجہ روز مرہ کی گھریلو چپقلش کے ڈرامے ہیں۔

روز کے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے مرد عورت دونوں ہی نفسیاتی دباؤ میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے دفتری معاملات ہوں، گھریلو معاملات ہوں یا معاشرتی میل جول سب میں ہی بگاڑ آتا ہے۔ انسان کے رویے اور برتاؤ بدل جاتے ہیں جس کو تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے۔ اب یہاں کون صحیح کون غلط، یہ بڑی لمبی بحث ہے۔ یہاں تو جس کی دم اٹھاؤ وہی دکھی آتما۔ ہر شخص اپنے آپ کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم گردانتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ معاملات درست کیسے ہوں؟ بھیا! برسوں کے سلسلے ہیں آن کی آن میں کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں؟

سیانے کہتے ہیں صدیوں سے بگڑی ہوئی چیزوں کو سدھارنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بگڑے معاملات کو درست ڈھب پر لانے کے لیے انقلابی قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔ ہمیں بھی اٹھانے چاہئیں اور صدیوں سے جاری اس نظام کو الٹا دینا چاہیے۔ روایات کے پہیے کو الٹا چلانا ہوگا گنگا کو الٹا بہانا ہی ہوگا۔ شادی کر کے بیٹیوں کو رخصت کرنا بند کردیں۔ بیٹیوں کی شادی کریں اور بیٹی داماد کو اپنے گھر میں رکھیں۔ بیٹوں کو گھر سے خوشی خوشی وداع کریں۔ یقین مانیں وہ خوشی خوشی رخصت ہو جائیں گے۔ اب شاعر نئے گیت لکھے گا، ”خوشی خوشی کردو وداع، تمہارا بیٹا راج کرے گا۔“ آزمائش شرط ہے، اس نئے سسٹم میں سب سکھ کا سانس لیں گے۔

ساس، بہو، نندیں، سسر، جیٹھ، جٹھانی، دیور، دیورانی سب کا ٹنٹا ختم، نہ ساتھ رہیں گے نہ جھگڑے ہوں گے۔ ساس بہو کا جھگڑا، نند بھاوج کی چپقلش، دیورانی جٹھانی کے مقابلے، سب ٹائیں ٹائیں فش ہوجائیں گے۔ بہوؤں پر ہونے والے ظلم تو صفحۂ ہستی سے ہی مٹ جائیں گے۔ ظلم کی چکی زمین بوس ہو جائے گی۔ بیٹیاں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گی، خود بھی سکھی رہیں گی اور ماں باپ کو بھی سکھی رکھیں گی، سسرال میں رہ کر تو داماد جی بھی آپے میں رہیں گے۔ راوی چین لکھے گا اس کی بیوی چین کی بنسری بجائے گی، ہر طرف سکھ اور چین کا بول بالا ہوگا۔ نہ کوئی جھگڑا، نہ لڑائی، نہ تو تو نہ میں میں۔ اب اچھے کی تمنا ہے تو کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ تو پھر، ہو جائے، زور لگا کے ہیا، پہیا گھماؤ بھیا! ابن آدم ہوا کرے کوئی، کوشش ہمارا کام ہے، باقی رہے نام اللہ کا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments