انڈیا: ٹیکس حکام کے حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا ہاؤسز بھارت سماچار اور دینک بھاسکر پر چھاپے


An entrance of the Hindi-language Dainik Bhaskar daily newspaper which was raided by Indian tax authorities, is pictured in Bhopal on July 22, 2021
دینک بھاسکر کے دفاتر اور اس کے عملے کے کئی افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں
انڈیا کے ٹیکس حکام نے ان دو معتبر میڈیا ہاؤسز کے دفاتر پر چھاپے مارے ہیں جو کورونا وائرس کے بارے میں حکومت کے رد عمل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ ٹی وی چینل بھارت سماچار اور اخبار دینک بھاسکر کے خلاف ٹیکس چوری کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

ان اداروں کے کچھ ملازمین کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگوں کے موبائل فون قبضے میں لے لیے گئے ہیں۔

میڈیا کے حقوق کے کئی گروہوں اور حزب اختلاف کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پریس کی آزادی پر سوچا سمجھا کر حملہ ہے۔

لیکن انڈیا کے اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے اس سے انکار کیا ہے کہ اس کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایجنسیاں اپنا کام خود کرتی ہیں، ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔‘

یہ بھی پڑھیئے

انڈیا: ٹی وی دفاتر پر چھاپے،آزاد میڈیا پر بحث

عمران خان، مودی، اردوغان اور محمد بن سلمان ’آزادی صحافت کے دشمنوں‘ کی فہرست میں شامل

’انڈیا میں ایک اور چینل پر ایک روزہ پابندی‘

ٹوئٹر پر ’اثر و رسوخ‘: وہ معاملہ جس میں انڈیا اور پاکستان ایک صفحے پر نظر آتے ہیں

ہندی میں شائع ہونے والا دینک بھاسکر ہندوستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخباروں میں سے ایک ہے۔

وباء کے دوران دینک بھاسکر اور بھارت سماچار نے پورے ملک میں وبائی مرض کے بارے میں حکومت کے ردعمل میں کوتاہیوں کا انکشاف کیا ہے، جس میں آکسیجن اور ہسپتالوں کے اندر بیڈز کی کمی بھی شامل ہے۔

انھوں نے کورونا وائرس سے مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے بارے میں بھی رپورٹیں کی تھیں، جو دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی نظر آئی تھیں۔

اپریل میں دینک بھاسکر نے انڈیا کی برسرِ اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے گجرات کے ریاستی صدر جیتو واگھانی کا فون نمبر بھی شائع کیا تھا۔

حال ہی میں اس نے کئی انڈین صحافیوں کے خلاف این ایس او گروپ کے پیگاسس سپائی ویئر کے استعمال کی بھی رپورٹ کی ہے۔

چھاپوں کے بعد دونوں میڈیا ہاؤسز نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے۔

دینک بھاسکر کے نیشنل ایڈیٹر اوم گوؤر نے اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چھاپہ ہماری جارحانہ رپورٹنگ کا نتیجہ ہے۔ دوسرے میڈیا کے برعکس ہم نے رپورٹ کیا کہ کس طرح لوگ آکسیجن اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔‘

President Narendra Modi

جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں کئی میڈیا گھروں کے خلاف تحقیقات ہو چکی ہیں

ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں بھارت سماچار نے لکھا: ’آپ ہمارا جتنا زیادہ گلا دبائیں گے، ہم اتنی ہی اونچی آواز سے سچ بولیں گے۔‘

2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حکومت نے مالی وسائل کے ناجائز استعمال کی وجہ سے متعدد ذرائع ابلاغ کے خلاف تحقیقات کی ہیں، جس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پریس کی آزادی کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

2017 میں ٹیکس حکام نے این ڈی ٹی وی کے دفاتر اور اس کے بانی روئے خاندان کے گھروں پر چھاپے مارے تھے۔

صحافیوں کے ایڈوکیسی گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے پریس کی آزادی کے حوالے سے انڈیا کی درجہ بندی 142 ویں نمبر پر کی ہے ہے، جو کہ میانمار اور میکسیکو کے برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp