تاروں سے کریں باتیں


دنیا کی بہت سی خوشیوں میں سے ایک خوشی یہ بھی ہے کہ انسان رات کو کھلے آسمان تلے چارپائی پر لیٹے چمکتے ہوئے تاروں کو دیکھتا رہے۔ شہروں میں یہ نظارہ چھت پر ممکن ہوتا ہے جب کہ گاؤں کی تو کیا ہی بات ہے۔ گھر کے صحن میں چارپائی بچھا کے گاڑھے کالے آسمان پر موجود سفید ستاروں پہ نظریں جمائے رکھنا ایک الگ ہی دنیا کی داستان معلوم ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کسی دور میں انسان انہی ستاروں کی مدد سے سمتوں اور راستوں کا تعین کیا کرتا تھا۔ نجم، اسٹار، ستارہ، تارہ، کوکب سبھی اسی کے نام ہیں۔ یہی اسٹارز جب چھوٹے بچوں کے چہروں پر استانیاں داد و تحسین دینے کے لیے بناتی ہیں تو ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں (جو بچے اس خوشی سے محروم رہے ہیں وہ اس کو محسوس نہیں کر سکتے، ان سے معذرت) ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ہم بہن بھائی، کزنز، آسمان پہ دب اکبر یعنی سات ستاروں کے جھرمٹ بلکہ کچھ لوگ جسے ریچھ یا اکٹھے رہنے کے سبب سات سہیلیوں کے نام سے پکارتے ہیں، کو تلاش کرنے میں لگے ہوتے تھے۔ اسی طرح کبھی قطبی ستارہ جو کہ آسمان پہ شمال کی جانب سب سے روشن ستارہ ہوتا ہے، اسے کھوج رہے ہوتے تھے، یا کبھی چارپائی کے چار پایوں کی طرح کا ایک چار ستاروں پہ مشتمل جھرمٹ کی جانب نظر دوڑاتے تھے یا اکثر ٹوٹ کر تیزی سے زمین کی طرف آتے ہوئے تاروں کی جانب محو ہو جایا کرتے تھے، یا یونہی کبھی آسمان پہ چلتے ہوئے تاروں کے ساتھ ساتھ دور تک سفر کیا کرتے تھے۔

بچپن تو پھر بچپن ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں بدلاؤ آتا چلا جاتا ہے۔ کبھی محض تفریح کے لیے آسمان کو دیکھا جاتا تھا اور بڑے ہو کر کچھ اور طرح کی کیفیات سے دو چار ہونا پڑتا ہے جیسے کہ اپنے کسے پیارے کے ساتھ ایک ہی شہر میں ایک ہی آسمان شیئر کرنا یا کسی دوسرے شہر میں موجود اپنے پیارے کو کہنا کہ وہ بتائے کہ وہ بھی اس وقت آسمان پہ چمکتے ہوئے تاروں کو دیکھ رہا ہے۔

ہمارے ہاں شاعری میں تو یہی آسمان پہ دیکھنا ایک مختلف رنگ اختیار کر جاتا ہے بقول بری نظامی:
گن گن تارے لنگھدیاں راتاں
سپاں وانگر ڈنگدیاں راتاں
یا بہ الفاظ جون ایلیا:
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

چلیے چھوڑیے، یہ شعرا بھی کبھی کبھار دکھی موڈ میں ہوتے ہیں اور نہ جانے کیا کچھ کہتے چلے جاتے ہیں۔ نور جہاں کا ایک فلمی گیت یاد آ رہا ہے وہ گنگناتے ہیں :

سب جگ سوئے ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں۔
تو چلیے آپ بھی تاروں سے باتیں کیجیے۔ ہم نے تو اپنی باتیں کر لیں اور لکھ بھی ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments