کیا پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت سکے گا


پاکستان دنیائے کرکٹ کی ایک ایسی ٹیم ہے۔ جس کے بارے میں دنیا کا کوئی تجزیہ کار حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کسی بھی وقت کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا کی مضبوط ترین ٹیم کو شکست بھی دے سکتی ہے۔ اور دنیا کی کمزور ترین ٹیم سے باآسانی ہار بھی سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کرکٹ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے محتاط نظر آتے ہیں۔ اکتوبر میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔

دنیائے کرکٹ کی تمام ٹیمیں بھرپور تیاری کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ کرکٹ کے تجزیہ کار پاکستان اور بھارت کو ہاٹ فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی شاید بڑی وجہ اس عالمی ٹورنامنٹ کی متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونا ہو۔ کرکٹ تجزیہ کار سمجھتے ہیں متحدہ عرب امارات کی کرکٹ کنڈیشن پاکستان اور بھارت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن اگر ریکارڈ پر نظر دوڑائی جائے تو وہ کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم متحدہ عرب امارات کے کرکٹ گراؤنڈ یعنی دبئی سٹی سپورٹس کمپلیکس میں کھیلے گئے 10 ستمبر 2012 کے میچ کے دوران صرف 74 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔

یہ میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا جا رہا تھا اور اس میچ کے کپتان پروفیسر محمد حفیظ تھے۔ جبکہ اسی پاکستانی ٹیم نے 2 اپریل 2018 کو کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 205 رنز بنائے اور اس کے صرف تین کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ اس میچ کے کپتان سرفراز احمد تھے۔ جو آج کل ٹیم کے ساتھ سفر تو کرتے ہیں مگر کرکٹ گراؤنڈ میں نظر کم آتے ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم کتنی بے اعتبار ہے اس کا اندازہ چند اور عالمی ریکارڈ سے لگا لیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں 25 فروری 1993 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف 43 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔

اس بدقسمت کرکٹ ٹیم کے کپتان وسیم اکرم تھے۔ اس میچ میں رمیز راجہ، آصف مجتبی وسیم اکرم، راشد لطیف، وقار یونس، مشتاق احمد تمام صفر پر آؤٹ ہوئے۔ جبکہ غلام علی، سعید انور، سلیم ملک، عاقب جاوید ڈبل فیگر میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ یہ وہ کرکٹ ٹیم تھی جس کو شعیب اختر سٹارز کی ٹیم کہتے ہیں۔ اس میچ میں ویسٹ انڈیز کے لیجنڈ کورٹنی واش نے صرف 16 رنز دے کر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

اسی پاکستانی ٹیم نے 25 جولائی 2018 کو بوللائیو زمبابوے کے کرکٹ گراؤنڈ میں 399 رنز بنا ڈالے اور صرف ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا اس تاریخی میچ میں امام الحق نے شاندار 113 رنز بنائے۔ جبکہ فخر زمان نے پاکستان کی طرف سے پہلی ڈبل سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی شاندار باری میں 25 چوکے اور پانچ چھکے بھی لگائے۔ اس تاریخی میچ کی قیادت بھی سرفراز احمد کر رہے تھے۔ جو آج کل ڈریسنگ روم میں ہی نظر آتے ہیں۔

اس میچ میں جنید خان، شعیب ملک، یاسر شاہ، عثمان شنواری موجود تھے آج کل نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایسی ٹیم ہے جو ٹیسٹ میچ میں بھی صرف 49 رنز پر آؤٹ ہو سکتی ہے۔ یہ میچ یکم فروری 2013 کو جوہانسبرگ میں کھیلا گیا۔ مدمقابل ٹیم ساؤتھ افریقہ تھی۔ اس میچ میں کپتان مصباح الحق تھے۔ جو آج کل قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ اس میچ میں جنوبی افریقی تیز بالر ڈیل سٹین نے گیارہ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

جبکہ اسی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نے 21 فروری 2009 کراچی کے انٹرنیشنل کرکٹ گراؤنڈ میں سری لنکا کے خلاف 765 رنز بنا ڈالے اور صرف چھ کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ اس میچ میں قومی ٹیم کی قیادت پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی یونس خان کر رہے تھے۔ انہوں نے اس میچ کے دوران ٹرپل سنچری بنائی ان کی 313 رنز کی اننگ میں 27 چوکے اور چار چھکے شامل تھے۔ اسی میچ میں وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل نے 158 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔

اس میں پانچ چھکے بھی شامل تھے۔ کامران اکمل بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز بنا بنا کر تھک چکے ہیں۔ لیکن ان کو کس غلطی کی سزا دی جا رہی ہے۔ کچھ یاد نہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اسی کرکٹ ٹیم نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیتا، 2017 میں چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی۔ لیکن بڑی بے اعتبار ٹیم ہے۔ شائقین کرکٹ اور کرکٹ ماہرین کو کسی بھی وقت کچھ بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ ٹیم کیا نتائج دیتی ہے۔

لیکن ایک بات بہت ضروری ہے۔ دنیائے کرکٹ کے کسی بھی ملک کے وزیراعظم سابق کرکٹ کپتان نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں پاکستان کو کم از کم کرکٹ کے میدان میں سب سے بہترین ہونا چاہیے۔ کیونکہ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایسے لوگوں کو لگایا جائے جو کرکٹ کو سمجھتے ہوں۔ جن کے پاس کرکٹ کا تجربہ ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایسے لوگ لگا دیے جاتے ہیں جن کا کرکٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

کرکٹ کو تو چھوڑیں ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ساری زندگی باہر گزارتے ہیں اور جب کوئی اہم نوکری ملتی ہے۔ تو فوراً حاضر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو قومی کرکٹ ٹیم میں بھی گونگے بہرے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ جن کھلاڑیوں کی زبان ہے۔ ان کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ جب تک کرکٹ میں سیاست چلتی رہے گی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments