قاضی نور احمد کی یادداشتیں : گرے پتے


گرے پتے ایک سیاسی کارکن کی یاداشتوں کا باغیچہ ہے وہ باغیچہ جہاں درخت لگے اور کٹتے گئے جنہوں نے امان پائی ان کے پتے خزاں رسیدہ ہو کر گرتے گئے۔ یاداشت کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اور اس پر کھل کر اظہار مصنف کی آزاد خیالی کو ظاہر کرتا ہے۔ مصنف نے جہاں کھل کر اپنی یاداشتوں کو کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ وہیں لکھتے لکھتے جذبات کو لگام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ بغیر کسی کنجوسی کے مصنف نے یادوں کے ساتھ انصاف کر کے انہیں اپنے تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ انہیں نوجوان نسل تک پہنچایا ہے جن کے لیے سیکھنے کی بہت بڑی حد تک گنجائش ہے۔ کتاب کو پڑھ کر اور بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں کہیں کہیں شک کا گمان ہونے لگتا ہے۔

کتاب کے مصنف قاضی نور احمد ہیں۔ اپنی یاداشتوں کا آغاز سکول کی اس گھنٹی سے کرتے ہیں جو اب بھی ان کی سماعتوں میں محفوظ ہے جس سے وہ محظوظ ہوا کرتے ہیں یاداشتوں کے اس سفر میں وہ اپنی زندگی کی ابتدائی احوال بیان کر کے کہتے ہیں کہ ان کا تعلیمی سفر مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا کراچی تک کیسے جاگزین ہوا۔ موڈ کھاتی ہوئی اس سفر میں اسے اس وقت والد کے سایہ سے محروم ہونا پڑا جب وہ زندگی کے ابتدائی مراحل میں سیکھنے کے عمل سے گزر رہے تھے بعد میں وہ بسلسلہ تعلیم کراچی جاگزین ہوتے ہیں کراچی میں اپنی سیاسی وابستگیوں اور سفری احوال بیان کر کے کہتے ہیں کہ وہ فرسٹ ائر کا طالبعلم تھے جب بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے انتخابات کا اعلان ہوا بعد میں ایجوکیشنل کا لفظ حذف کر کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنا دیا گیا۔

یہ بلوچ طلبا سیاست کا ابتدائی دور تھا۔ ڈاکٹر حئی صدر اور بیزن بزنجو جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ قادر بخش نظامانی جو نیپ لیڈرشپ کے خلاف تھے نے بلوچ اسٹوڈنٹس کو تقسیم کرنے کی ذمہ داری عبدالرحیم ظفر کو سونپی۔ دوسرا گروپ بنا بی ایس او اینٹی سردار کے نام سے۔ سیدان مری صدر اور صابر بلوچ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔

مصنف کتاب میں اپنی مفلسی کے دنوں کو بھی نہیں چھپا پایا ہے۔ حصول علم کے لیے وہ بتاتا ہے کہ انہیں کس کس کا سہارا لینا پڑا وہیں وہیں مفلسی کے ان دنوں میں اپنی عیاشیوں کا جابجا ذکر کتاب میں کرتے ہیں بالخصوص شراب نوشی کا۔ سبب عیاشی اسے ذوالفقار علی بھٹو کے در تک لے جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے ہو جاتی ہے۔ بھٹو کی یہی ملاقات کہیں ایک زمانہ گزر جانے کے بعد بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت در آتا ہے جب بطور سرکاری ملازم دوران استقبال سامنا بھٹو سے ہو جاتا ہے بھٹو دیکھتے ہی اسے پہچان جاتا ہے اور جاتے جاتے حکم دے جاتا ہے کہ انہیں اپنی پارٹی میں لے آئیں۔

مصنف کی کتاب کا آدھا حصہ حمید بلوچ واقعے کے گرد گھومتا ہے جب بی ایس او کے سرکردہ رہنما حمید بلوچ کو پھانسی کی سزا کا حکم نامہ سنایا جاتا ہے تو اس کے لیے مصنف اپنی ان توانائیوں کا ذکر سامنے لے آتا ہے جو اس انہوں نے دشتی خاندان کے ساتھ مل کر اسے بچانے کے لیے صرف کی تھیں۔ ان کے خیال میں حمید بلوچ کو نکالنے کے لیے واحد ذریعہ دیوار کو مواد سے اڑانے کی صورت میں ہی ممکن ہو سکے گا۔ مصنف کے خیال میں اس منصوبے کو ناکام بنانے میں بی ایس او کے چیرمین حبیب جالب کا ہاتھ تھا وہ حبیب جالب کو حمید بلوچ قتل کیس کا مجرم گردانتے ہیں۔

یہیں پر آ کر مصنف کی قلم جذبات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے مصنف اپنی عدالت لگا لیتا ہے کہ مجرم حبیب جالب ہیں مصنف کے بقول منصوبہ بندی سے قبل جب حبیب جالب دشت کنچتی آتے ہیں تو کریم دشتی مہمانوں سے ملنے کا کہتے ہیں تو وہ جواباً کہتا ہے ”واجہ یہ دھوکہ باز ہیں فراڈ ہیں مجھے ان میں مت الجھائیں“ اس جملے سے عیاں ہوتا ہے کہ مصنف کا ذاتی عناد در آتا ہے یہ الزام ہے یا حقیقت۔ حبیب جالب چونکہ اب نہیں رہے اس کا جواب ڈھونڈنا اب ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔

البتہ ڈاکٹر مالک بلوچ کے حوالے سے جو رائے مصنف نے قائم کیے ہیں ان پر ڈاکٹر کی رائے سامنے آنا ضروری ہے کہ وہ کیوں ڈاکٹر حمید بلوچ واقعے کو لے کر دست بردار ہو جاتے ہیں یا یہ کہ پارلیمانی سیاست کو مسترد کر کے بعد میں اسی میں کھود کر شامل ہوجانا اور غوث بخش بزنجو کے خلاف امیدوار کھڑا کرنا۔ غوث بخش بزنجو کی شکست پر مصنف نے سوال اٹھائے ہیں۔

جیل واقعے کے الزام میں مصنف کو نہ صرف ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے بلکہ اس واقعے کی معاونت کرنے پر انہیں مقدمے کا سامنا ہو جاتا ہے نتیجہ خودساختہ جلاوطنی بن جاتا ہے۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کا سفر کرنا پڑتا ہے دوران سفر جہاں اسے مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو جا بجا وہ میجر جمیل دشتی کے احسانات کا ذکر کرتے چلے جاتے ہیں کہ انہیں مالی معاونت ان کی جانب سے فراہم ہوتا ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ پاتے ہیں۔

لندن سفر کا ذکر کر کے وہ کہتے ہیں کہ جب کنفیڈریشن بننے جا رہا تھا تو لندن کا بلاوا آیا۔ چلے گئے وہاں آزاد بلوچستان پر مباحثہ چل نکلا مصنف کے بقول میں نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ کابل، لندن اور متحدہ عرب امارات میں بیٹھ کر غم روزگار سے آزادی ملے گی بلوچستان کی نہیں۔ جس پر ایرانی بلوچوں نے اسے مایوس بلوچ کا لقب دیا جبکہ بلوچ دانشور اکبر بارکزئی نے ملنا چھوڑ دیا۔ ایک اور جگہ بلوچ کمک کار تنظیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یو اے ای میں قائم یہ تنظیم بظاہر بلوچوں کی امداد کے لیے قائم کی گئی تھی مگر اس کے چھتری تلے دعوتوں اور شراب پہ پیسہ لٹایا جاتا تھا یہ اور بات ہے کہ مصنف کی شراب نوشی کی کہانیاں بھی کتاب میں جگہ جگہ در آتی ہیں۔ مصنف کے بقول ان کی انہی مباحثوں سے پیدا ہونے والی صورتحال نے قوم پرست اور آزاد پرست کامریڈوں کو ان سے ناراض کیا۔

کتاب میں مصنف جہاں سیاسی صورتحال کا ذکر کرتا ہے وہیں زمینی صورتحال سفری آمدو رفت اور مشکل صورتحال کا جگہ جگہ نمایاں ذکر ہے جب وہ اور ڈاکٹر نصیر دشتی بذریعہ موٹرسائیکل تربت سے کراچی تک کا سفر کرتے ہیں تو اس سفر کو طے کرتے ہوئے انہیں پانچ دن لگتے ہیں سفری مشکلات سفر کے دوران وہاں کے مکینوں کی مہمان نوازی کا ذکر بھی مل جاتا ہے۔

میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگیوں کا جابجا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ جب میر صاحب گورنر تھے تو انہوں نے اسے کوئٹہ آنے کی دعوت دی تو وہ چلے گئے ان کے لیے حیران کن لمحہ وہ آیا جب میر صاحب نے انہیں پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے پوچھا بچ تو کیے ؟ تو وہیں ناراضگی کا اظہار وہاں سے نکل جانے کی صورت میں در آیا۔ میر صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں الیکشن اور الیکشن میں بی این وائی ایم کا قیام اور میر صاحب کی شکست پر وہ کھل کر ڈاکٹر مالک اور اس کے ساتھیوں کو لتاڑتے نظر آتے ہیں بی این وائی ایم سے بی این ایم (حئی اور مینگل) اور بی این ایم سے بی این پی اور بی این پی کی دو دھڑوں میں تقسیم کے بعد مصنف بی این پی عوامی میں پناہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں جن پر انہیں بزن بزنجو کی جانب سے طعنہ اور مصنف جوابی طعنہ نیشنل پارٹی کا قیام اور میر صاحب کے سیاسی حریفوں کی اس میں شمولیت کو گردانتے ہوئے نظر آتا ہے۔

مصنف کی یاداشتیں تاریخ کا حصہ ہیں اس نے اپنی یاداشت کو جتنا کھنگالنا تھا کنگال لیا ہے۔ یہ نہ صرف مصنف کی ذاتی اور سیاسی زندگی کا احاطہ کرتا ہے بلکہ اس میں سیاسی طالبعلموں کے لیے بہت کچھ ہے بی ایس او کے بننے اور ٹوٹنے اور پارٹیوں کی جوڑ تور کی کہانیاں کتاب میں جا بجا ملتی ہیں جہاں ابہام موجود ہوں تو وہیں مصنف حیات ہیں ان سے مزید بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسے آپ ایک کارکن کی سیاسی آپ بیتی کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے اسے کتابی شکل دے کر اپنے آپ کو ایک یادوں کی ایک بہت بڑی بوجھ سے آزاد کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments