نواز شریف کی افغان حکام سے ملاقات میں ملک دشمنی کے امکانات


مریم نواز کی دلیل پر غور کیا جائے تو جو کام تحریک انصاف کی حکومت کرنے میں ناکام رہی ہے، وہی کام نواز شریف اپنی علالت اور جلاوطنی کے باوجود سرانجام دے رہے ہیں۔ یعنی ہمسایہ ممالک کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول پر مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حمداللہ محب سے نواز شریف کی ملاقات پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور دیگر وزرا کے تبصروں پر نگاہ ڈالی جائے تو نواز شریف نے حمداللہ سے مل کر قومی مفاد کا سودا کیا اور ایک ایسے شخص سے ملاقات کی جو پاکستان کو ’طوائف خانہ‘ سے تشبیہ دے چکا ہے۔

سچائی شاید ان دونوں انتہائی بیانات کے بیچ تلاش کی جاسکے۔ البتہ وزیر اطلاعات سمیت متعدد وزرا نے لندن میں نواز شریف سے حمداللہ محب کی سربراہی میں افغان حکومت کے وفد کی ملاقات پر جس طرح تند و تیز اور سخت بیانات دیے ہیں اور اس ایک ملاقات کی بنیاد پر جس طرح نواز شریف کی ’ملک دشمنی اور غداری‘ کا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں :

ایک: حکومت داخلی اور خارجی طور سے اپنی ناکامیوں سے بدحواس ہے اس لئے اس کے نمائندے ہر گھڑی کسی ایسے ’نان ایشو‘ کی تلاش میں رہتے ہیں، جس کی بنیاد پر اپوزیشن کے ساتھ تناؤ قائم رکھا جاسکے اور مباحث کا رخ حقیقی مسائل و کارکردگی کی طرف موڑنے کی بجائے ذاتی حملوں اور بے بنیاد الزامات کے سہارے سیاسی ماحول کو گرم رکھتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا جاسکے۔

دوئم: تحریک انصاف کی حکومت خواہ کتنے اصرار سے یہ بات کہے کہ اسے نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ نواز شریف ہوں یا مریم نواز، وہ اب قصہ پارینہ ہیں اور انہیں جلد یا بدیر اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ درحقیقت حکومت اور اس کے تمام نمائندے تمام تر نعروں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت سے بدحواس ہیں۔ انہیں خاص طور سے یہ سچائی پریشان کیے ہوئے ہے کہ تین سال کی مسلسل کوششوں کے باوصف نہ تو مسلم لیگ (ن) کو توڑا جا سکا ہے اور نہ ہی پنجاب میں اس کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ ابھی تک غیر جانبدار تجزیوں میں یہی بات کہی جاتی ہے کہ ملک کے آئندہ انتخابات اگر کسی مداخلت و دھاندلی کے بغیر ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی سیاست میں اس خوف کو واضح طور سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

نواز شریف کی افغان وفد سے ملاقات پر ردعمل کے حوالے سے ان دو نکات ہی کی روشنی میں وزیروں کی پوری فوج نے تند و تیز، تلخ اور شدید بیانات جاری کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس کی بھی دو وجوہات نوٹ کی جا سکتی ہیں۔ ایک تحریک انصاف کی قیادت نواز شریف کے خلاف معمولی سے واقعہ کو بھی پوری شدت سے استعمال کر کے کسی طرح ان کی مقبولیت کو متاثر کرنا چاہتی ہے اور عوام کو یقین دلانا چاہتی ہے کہ نواز شریف سے تحریک انصاف کا جھگڑا سیاسی نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کی ملک دشمنی اور قومی خزانہ لوٹنے کی وجہ سے عمران خان کسی بھی قیمت پر نواز شریف سے کسی قسم کی مفاہمت کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی دوسری وجہ بہت سادہ ہے جو عمران خان کے مزاج کے عین مطابق ہے اور ان کا قرب و اعتماد حاصل کرنے کے خواہاں وزیروں کی مجبوری بن چکی ہے۔ عمران خان ہر اس ساتھی سے خوش ہوتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں جو نواز شریف پر شدت سے حملہ آور ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرے۔ سخت اور شدید سیاسی بیان دینے والے وزیروں کی عزت افزائی کی جاتی ہے اور جو وزیر ذاتی سطح پر اتر کر بیان بازی سے گریز کرتے ہیں انہیں عمران خان کی تفہیم میں ’نا اہل‘ کہا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ حمد اللہ محب سے ملاقات پر تبصرہ کرنے اور نواز شریف کے اس اقدام کو ملک دشمنی اور قوم سے غداری قرار دینے میں کوئی بھی وزیر پیچھے رہنا نہیں چاہتا۔ ایسے بیان اپنا عہدہ برقرار رکھنے اور عمران خان کی نظروں میں آنے کا سب سے موثر ذریعہ بن چکے ہیں۔ حالانکہ نواز شریف نے افغان وفد سے ملاقات خفیہ طور سے نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے پوشیدہ رکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اگر نواز شریف کو اس ملاقات کی معلومات عام ہونے سے کسی قسم کا سیاسی اندیشہ لاحق ہوتا تو وہ اس سے گریز کرتے یا افغان قومی سلامتی کونسل کو ملاقات کی تصاویر عام کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ بلکہ اس حوالے سے اس پہلو پر بھی غور ہونا چاہیے کہ یہ تصاویر نواز شریف، مریم نواز یا مسلم لیگ (ن) کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جاری نہیں کی گئیں بلکہ افغانستان کے سرکاری ادارے نے انہیں جاری کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف افغان حکومت ہی نہیں بلکہ نواز شریف بھی انہیں لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔

جلاوطنی میں ایک ایسے ہمسایہ ملک کے طاقت ور نمائندوں سے نواز شریف کی ملاقات اور اس کا اعلان بلاوجہ نہیں ہو سکتا، جہاں ابھرنے والا بحران اس وقت پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس ملاقات سے افغانستان کے معاملہ پر اہم فیصلے کرنے والے ملک کے بعض با اثر ادارے اور اہم ممالک بھی آگاہ ہوں گے۔ ملاقات میں جن ’باہمی دلچسپی کے امور‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، وہ وہی پہلو ہوسکتے ہیں جن پر تحریک انصاف کی حکومت مکالمہ کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ بلکہ گزشتہ ماہ حمداللہ محب نے ننگر ہار میں ایک تقریر کے دوران پاکستان کو ’طوائف خانہ‘ کہنے پر پاکستان نے اس قدر شدید رد عمل ظاہر کیا تھا کہ اس کے بعد سے قومی سلامتی کے افغان مشیر کے ساتھ ہر قسم کی مواصلت بند کردی گئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ’یہ تقریر سن کر میرا خون کھول رہا ہے۔ جس شخص کو افغانستان میں قومی سلامتی کی ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اپنی حرکتوں سے افغانستان میں امن کے امکانات کو تباہ کردے گا‘ ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف نے افغان وفد اور پاکستان پر ناروا حملے کرنے والے ایک لیڈر سے ملاقات سے پہلے ہوم ورک کیا ہوا تھا لیکن تحریک انصاف کے وزیروں نے افغان قومی سلامتی کونسل کی طرف سے تصاویر جاری ہونے کے بعد اس معاملہ کی نزاکت، اہمیت، ضرورت اور پس منظر پر کوئی خاص غور کرنے کی بجائے مقابلے بازی میں یکے بعد دیگرے دھؤاں دار قسم کے بیانات جاری کرنے شروع کر دیے۔ ٹویٹر نے یوں بھی یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ کسی وزیر کو بیان داغنے کے لئے کسی سیکرٹری کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ کسی صحافی کو بلانا پڑتا ہے۔ بس جو دل میں آیا اسے شدید ترین الفاظ میں لکھ کر نشر کر دیا۔ امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ٹویٹر حکمت عملی سے امریکی عوام کی بڑی تعداد کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کیا تھا۔ اب پاکستان کے متعدد وزیر بھی یہی خواب دیکھتے ہیں کہ اس طلسماتی ذریعے سے وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں۔ ان میں سے اکثریت عمران خان کی خوشنودی کو ہی منزل مقصود سمجھتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ نواز شریف کو ٹویٹر پر رگید کر وہ یہ مقصد آسانی سے حاصل کر لیں گے۔

پاک افغان تعلقات کی پیچیدگی، افغانستا ن میں دگرگوں حالات، امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے تناظر میں طالبان کی گرمجوشی اور افغان حکومت کے ساتھ اس جنگجو گروہ کی مخاصمت کے حوالے سے پاکستان کو شدید تشویش و پریشانی لاحق ہونی چاہیے۔ اس بارے میں امن اور عوام کی مرضی کے مطابق کابل میں حکومت کے قیام کے نعروں سے کام چلانے کی بجائے پاکستان کو بعض ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے تنازعہ کے سب فریقوں کے ساتھ تعلقات اور احترام کا رشتہ استوار کرنا اہم ترین ہے۔ اگرچہ امریکی ادارے بھی یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت طالبان کے دباؤ کا سامنا نہیں کرسکے گی اور جلد یا بدیر طالبان کابل پر قابض ہوجائیں گے۔ لیکن موجودہ حکومت صرف اشرف غنی یا ان کے چند ساتھیوں کا نام نہیں ہے۔ یہ حکومت طالبان مخالف اور اپنے اپنے طور پر طاقت ور گروہوں کی نمائندہ ہے۔ افغانستان کا کوئی سیاسی حل ان گروہوں کو اعتماد میں لئے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن پاکستانی حکومت نے نہ جانے کس حکمت کے تحت اشرف غنی اور ان کی حکومت سے فاصلہ پیدا کرنا ضروری سمجھا۔ حکومتی نمائندے متعدد افغان عہدیداروں کو بھارتی ایجنسی ’را‘ کا ایجنٹ اور پاکستان دشمن قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی ہمسایہ ملک کی حکومت کے بارے میں ایسا رویہ مسلمہ سفارتی روایات کے برعکس ہے۔

نواز شریف سے افغان حکومتی وفد کی ملاقات یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کی اسٹبلشمنٹ باہمی تعلقات کو مکمل طور سے ختم نہیں کرنا چاہتی بلکہ تعاون کے امکانات تلاش کرنے کی خواہاں ہیں۔ یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ طالبان بھی اس ملاقات سے آگاہ ہوں اور اسے دوحہ مذاکرات میں پیش آنے والی مشکلات دور کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کی کم فہمی اور ناپختہ سفارت کاری کی وجہ سے نواز شریف کو ممکنہ متبادل کے طور پر اعتماد میں لینا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

وزیروں کے بیانات اور نواز شریف پر شدید حملوں سے یہ تاثر قوی ہوگا کہ حکومت اندرونی طور سے کمزور ہے اور لندن میں ہونے والی ایک معمول کی ملاقات کو وہ اپنے خلاف ’سازش‘ سمجھ کر بدحواس ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments