پاکستانی کشمیر میں انتخابات: ‘تینوں بڑی جماعتیں پاکستان کی سیاست یہاں لے آئی ہیں’


مظفر آباد — پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے گیارہویں عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے۔ 53 نشستوں پر مشتمل قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کے لیے مخصوص ہیں جن کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں پولنگ جاری ہے۔

آٹھ مخصوص نشستوں میں سے پانچ خواتین کے لیے مختص ہیں جب کہ ایک ایک نشست ٹیکنو کریٹس، علما و مشائخ اور سمندر پار کشمیریوں کے لیے مخصوص ہے۔ ان نشستوں پر بالواسطہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان علیحدہ سے ہو گا۔

بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں یہ پہلا انتخاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حکمران جماعت تحریکِ انصاف سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی انتخابات میں کافی سرگرم ہیں۔

کشمیر میں انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں یہاں انتخابات میں عموماً مسئلہ کشمیر کے مقابلے میں مقامی مسائل جیسے پانی اور سڑک جیسی سہولیات الیکشن پر اثرانداز ہوتی ہیں لیکن اس مرتبہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھارت کا پانچ اگست 2019 کا اقدام کافی نمایاں رہا ہے۔

مرکز اور کشمیر میں حکمراں جماعت کے مایین مقابلہ

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق خطے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 32 لاکھ 20 ہزار 546 ہے جن میں چار لاکھ تین ہزار 456 ووٹرز پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزین ہیں۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی مجموعی تعداد 708 اور ان میں 317 آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مقامی حلقوں میں امیداروں کی تعداد 587 بتائی گئی ہے جب کہ 121 امیدوار کشمیری پناہ گزینوں کے حلقوں سے شامل ہیں۔

مقامی انتخابی حلقوں کی 33 نشتوں کے لیے 261 جب کہ مہاجرین کے 12 حلقوں میں 56 آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ اگرچہ نوجوانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے تاہم خواتین امیدواروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

حیرت انگیز طور پر تین بڑی جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی نے کسی خاتون امیدوار کو براہِ راست نشستوں پر ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف نے ایک اور مسلم لیگ (ن) نے دو خواتین کو امیدوار نامزد کیا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سے قبل مقابلہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان ہی رہا ہے۔ 2006 تک مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلز پارٹی خطے کی سب سے بڑی جماعتیں تھیں۔

سن 2011میں مسلم کانفرنس کی جگہ مسلم لیگ (ن ) نے لے لی۔ 2011 اور 2016 کے انتخابات میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی رہا۔ پہلی مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف ایک تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے اور ماہرین کے خیال میں پاکستان میں برسرِ اقتدار ہونے کے باعث قوی امکان ہے کہ تحریکِ انصاف خطے میں انتخابات جیت کر حکومت بنا سکتی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عمومی تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں برسرِ اقتدار جماعت ہی خطے میں حکومت بناتی ہے اور ماضی کے 11 انتخابات میں یہ تاثر برقرار رہا ہے۔ البتہ اس مرتبہ تینوں جماعتوں کی بھرپور انتخابی مہم کے باعث امکان ہے کہ پاکستان میں برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کو یک طرفہ مقابلے کے بجائے دونوں حریف جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا رہے گا۔

ماضی کے مقابلے میں مختلف انتخابی مہم

یہ انتخابات ماضی کے انتخابات سے کئی لحاظ سے مختلف ہیں۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت کی طرف سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلی بار انتخابات ہو رہے ہیں۔

مریم نواز اپنے جلسوں میں حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔
مریم نواز اپنے جلسوں میں حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ بھارت کے اس اقدام کے بعد پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں کے مبینہ طور پر غیر مؤثر اقدامات پر اپنے ردِعمل کا اظہار ووٹر ان انتخابات میں کریں گے۔

البتہ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس خطے کے انتخابات مقامی تعمیر و ترقی اور روزگار جیسے مسائل کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور تنازع کشمیر کو انتخابات میں ہمیشہ ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے۔

سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر وقاص علی کوثر کے بقول “یہاں انتخابات میں برادریاں، مقامی مسائل، ترقیاتی منصوبے اور سرکاری نوکریاں مدِنظر رہتی ہیں۔ اگرچہ تنازع کشمیر کو بھی انتخابی منشور اور سیاسی تقریروں میں شامل رکھا جاتا ہے تاہم ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی جماعت یا امیدوار تنازع کشمیر کو بنیاد بنا کر یہاں کے انتخابی نتائج کو بدلنے کے قابل ہو سکے۔”

پاکستان کے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو ضم کرنے کے خدشات اور ریفرنڈم کی پیش کش

پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے بعد پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی صوبہ بنانا چاہتا ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر اس خدشے کا اظہار بارہا کر چکے ہیں کہ ممکن ہے وہ اس خطے کے ‘آخری’ وزیرِ اعظم ہوں۔ ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی الیکشن مہم کا مرکزی نکتہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی منفرد سیاسی شناخت کا تحفظ ہی رہا ہے۔

الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا یہ نعرہ بھی کافی مقبول رہا کہ ‘بچہ بچہ کٹ مرے گا، کشمیر صوبہ نہیں بنے گے۔‘

اگرچہ مسلم لیگ (ن) کا یہ بیانیہ کشمیر میں کافی مقبول رہا اور پی ٹی آئی نے ان الزامات کا جواب نہیں دیا تاہم وزیرِاعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے آخری روز کوٹلی میں انتخابی جلسے سے خطاب میں ایسے کسی بھی منصوبے کی تردید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “مخالفین کہہ رہے ہیں کہ میں کشمیر کو صوبہ بنانا چاہتا ہے، یہ بات کہاں سے آئی، مجھے علم نہیں۔”

عمران خان کا کہنا تھا کہ “وہ کشمیر میں ایک ریفرنڈم کروائیں گے جس میں کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔”

سیاسی محقق قیصر خان، عمران خان کے اس بیان کو کوٹلی اور پونچھ کے قوم پرست ووٹ کو راغب کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔

ان کے بقول “مسلم لیگ (ن) نے پہلے ہی اپنی ساری توجہ قوم پرست ووٹ پر رکھی ہے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ لہذٰا عمران خان کا یہ اعلان کشمیریوں کے لیے کچھ خاص کشش نہیں رکھتا۔”

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی کشمیر میں جلسوں سے خطاب کیا تھا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی کشمیر میں جلسوں سے خطاب کیا تھا۔

قیصر خان کا خیال ہے کہ عمران خان کا ریفرنڈم کا وعدہ اقوامِ متحدہ کے ریفرنڈم کے وعدے کی تکمیل سے مشروط ہے جس کا کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں۔ اس کے بجائے اگر عمران خان اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والے ریفرنڈم میں تیسرے آپشن کی شمولیت کی حمایت کا اعلان کرتے تو وہ کشمیریوں کے لیے زیادہ پرکشش ہوتا۔”

صحافی طارق نقاش کا خیال ہے کہ اس سے قبل انتخابی مہم میں مقامی مسائل، تعمیر و ترقی اور روزگار کی فراہم کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ “سیاسی جماعتوں اور قائدین کے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے تاہم ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین پاکستان کی سیاست کو اٹھا کر کشمیر میں لے آئے ہیں۔”

وہ کہتے ہیں کہ “کسی جماعت نے خطے کی تعمیر و ترقی کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں دیا اور کشمیر کا مسئلہ بھی تقریروں اور جذبات کو بڑھکانے کے لیے ہی استعمال ہوا۔ غداری اور کشمیر فروخت کر دینے جیسے الزامات اور وفاقی وزرا کی جانب سے ناشائستہ زبان کا استعمال بھی ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوا۔”

اُن کے بقول” ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پانچ سال اقتدار میں رہنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیتی مگر بدقسمتی سے ان کے پاس ایسا کچھ نہیں جسے دکھا کر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ اس لیے انہوں نے کشمیر بیچ دینے اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو صوبہ بنانے کی مبینہ کوششوں کی آڑ لے کر الیکشن مہم چلائی۔”

وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کشمیر میں جلسوں سے خطاب کیا تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کشمیر میں جلسوں سے خطاب کیا تھا۔

پاکستانی کشمیر کے انتخابات اس لحاظ سے ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ہیں کہ کشمیر کی خود مختاری کی حامی جماعتوں اور امیدواروں کو متنازع انتخابی قوانین کے تحت انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔

اس سے قبل انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر لازم تھا کہ وہ خطے کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے کی پاسداری کا حلف نامہ الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں، تاہم 2020 کے الیکشن ایکٹ میں یہ پابندی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں کے لیے بھی لازم قرار دی گئی ہے۔

یہی وجہ سے کہ اس خطے کی کوئی بھی قوم پرست جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی انتخابی عمل میں شریک ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ‘جے کے ایل ایف’ کے بعض دھڑوں اور ‘این ایس ایف’ سمیت بعض قوم پرست جماعتوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم چلائی ہے اور اس دوران این ایس ایف کے کئی کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا۔

انتخابی مہم کے آخری روز عین اس وقت جب وزیرِ اعظم عمران خان تراڑ کھل میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے، لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے نے کچھ ہی فاصلے پر ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا اور ان انتخابات کو ‘فراڈ’ قرار دیکر بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments