عورت کی حیثیت ہی کیا ہے!


گزشتہ روز، عورت مارچ کے زیر سایہ گھریلو تشدد اور خواتین کے قتل کے خلاف منعقدہ احتجاج پر بھی کچھ ایسے مناظر دیکھے جو عام تھے۔ عورت مارچ پر مرد صحافیوں کی بدتمیزی اور غرور تو دیکھا ہی تھا، کل احتجاج پر موجود دو لڑکوں کی روایتی مردانگی اور بدتمیزی کا خوب عالم بھی دیکھنے کو ملا۔ گویا پولیس تعینات تھی، اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی تھی مگر میں نے خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی ہم پر ہنستے دیکھا۔ مرد اہلکار تو ہنس ہی رہے تھے، آس پاس گزرنے والے مخصوص بھی ہو رہے تھے، جیسے مری ہوئی پاکستانی عورتوں کا ماتم ماتم نہ ہو کوئی کھیل تماشا ہو۔

میں نے ایک لڑکے کو عورت مارچ کی نگہبان خاتون سے بدتمیزی کرتے دیکھا۔ میں نے اسی لڑکے اور دوسرے شخص کو مجھے بھی نفرت سے دیکھتے ہوئے دیکھا۔ یہ دونوں اشخاص مرکزی منڈپ کے ساتھ کھڑے ماتمی احتجاج سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میں خواتین پولیس اہلکاروں سے ان کی شکایت کرنے نہیں گئی کہ ان کے انداز سے مجھے ہمارے اس احتجاج سے بے زاری محسوس ہوئی۔ میں غلط بھی ہو سکتی ہوں اور صحیح بھی۔ اس احتجاج میں زیادہ سے زیادہ کیا برا ہو سکتا تھا؟ جان سے جانے والی عورتوں کے نام ہی تو پکارے جا رہے تھے۔ کیا یہ بھی اخلاقی وقار کے خلاف تھا؟

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس وقت اس ملک میں جانوروں کی ”اخلاقی“ طور پر گردنیں کٹ رہی تھیں، اس سے چند گھنٹے قبل رات میں ایک لڑکی کی بھی قربانی کی گئی۔ ہم چاہے لاکھ کہانیاں کیوں نہ گھڑ لیں کہ قربانی کا جانور قربان ہونے کو بیتاب ہوتا ہے مگر عین قربانی کے وقت اس کا احتجاج، آنکھیں، اور لرزتے جسم کے تمام حصے بتلاتے ہیں کہ مرنا تو کوئی جاندار بھی نہیں چاہتا۔ کوئی بھی ذبح نہیں ہونا چاہتا۔ آپ کیا تھپڑ کھانے کے روادار ہوسکتے ہیں؟ تو کوئی تشدد سہنے اور ذبح ہونے کا روادار کیسے ہو گا؟ انسانیت یا یوں کہیے کہ جانداروں میں شعوری یا لاشعوری طور پر ایک عقیدہ ہے جس پر سب متفق ہیں کہ تکلیف اور درد کوئی بھی نہیں سہ سکتا۔ زندگی کا نظام ہی ایسا ہے، دماغ تکلیف نہ سہنے کی ہر طرح کی کوشش کرتا ہے۔ تو کوئی انسان جس پر برملا تشدد معمول کی بات ہو وہ کیسے اس پر خوش ہو سکتا ہے؟ لوگ اس عام فہم کی بات پر بھی کیسے غیر انسانی غیر فطرتی تاویلیں گھڑ سکتے ہیں؟

اکثر خواتین کی محافل میں یہ کہانی عام بتائی جاتی ہے کہ شوہر کا مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ ایک نیک عورت کو روز مار پڑتی تھی۔ اس کا متشدد شوہر اس کو ڈنڈے سے پیٹتا تھا۔ جس روز اس کا شوہر اس پر تشدد کرنا بھول جاتا وہ اس کے تکیے کے پاس آلہ تشدد رکھ کر سوتی کہ اس کو اٹھ کر دقت نہ ہو اور باآسانی اس کو پیٹ سکے۔ ہم جب ان کہانیوں کی نفی کرتی ہیں تو ہمیں لادین کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے جبکہ یہ لوگ اصل میں دین کی نفی کرتے ہیں اور تشدد جیسے غیر فطرتی عمل کو فطرت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

اب شاید وہ وقت ہے کہ دو محاذوں کی لکیر کھینچ دی گئی ہے، آپ یا تو خواتین اور محکوم طبقوں پر تشدد کے خلاف ہیں یا اس کے حق میں ہیں۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔ آپ قتل کو وحشیانہ کہہ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑکی کی لڑکے سے دوستی ہی کیوں تھی۔ اس ظلم کے جو حق میں ہیں ان کو کسی دلیل سے سمجھایا نہیں جاسکتا۔ سب کو معلوم ہے تشدد بری چیز ہے، نہیں کرنا چاہیے مگر اس کے باوجود بھی تشدد کے حامی تشدد کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر کے رہتے ہیں۔

وہ عورت جو مر گئی، آخر تھی کیوں وہاں، آپ کے سامنے کوئی شواہد سے کہہ بھی دے کہ اس کو زبردستی رکھا گیا تھا وہاں مگر ایسے جواز پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں تشدد اور نفرت نے جان نکاح یافتہ عورت کی بھی لی ہے اور سابقہ دوست کی بھی۔ نکاح کی پرچی جس پر عورت کے صرف دستخط ہی ثبت ہوتے ہیں نے آج تک کسی عورت کو جنونی مرد کے جلال اور غضب سے نہیں بچایا۔ کیا غصہ شادی شدہ مرد کو نہیں آتا یا غیر شادی شدہ محبوب کو آتا ہے؟ اس میں کیا تعلق بنتا ہے کہ پدرشاہی نظام کے کسی اصول کے تحت کہیں یہ لکھا ہے کہ شوہر کو جب غصہ آئے گا تو وہ بیوی پر جابرانہ تشدد نہیں کرے گا یا غصہ صرف غیر شادی شدہ مرد کو آئے تو وہ جائز ہے؟ ایک شوہر بھی بیوی کی انسانیت اور زندگی کی توقیر کر سکتا ہے اور ایک غیر مرد بھی۔ محبت میں ناکامی پر عورت مرد کی گاڑی کے شیشے توڑتی ہے اور مرد عورت کا سر قلم کرتا ہے۔ یہی ضابطے اور اصول ہیں جو اس دنیا میں وضع کیے گئے ہیں۔

ہمیں اب یقین کر لینا چاہیے کہ یہ نظام ہمارے حق میں کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کی بنیادوں میں ہی تشدد ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب میٹرو اسٹیشن پر کم عمر لڑکی پر ایک کم عمر لڑکے کی بد تمیزی اور چیخ و پکار کی روداد سنائی تو جواب میں یہ سننے کو ملا کہ لڑکی نے لڑکے کو ”چھوڑ“ دیا ہو گا۔ جیسے کسی کو چھوڑ دینے کا جواب اس کو بیچ بازار زد و کوب کرنا، اس کی توہین کرنا جائز ہوا؟ جس معاشرے میں سرے سے انسانی توقیر اور عزت نفس کی حرمت سکھانے کی بجائے انتقام اور جنگ ہی سکھائے جائے وہاں کسی کو چھوڑ دینے پر جان لینا اور سر قلم کرنا سراہا ہی جاتا ہے جو کہ سراہا جا بھی رہا ہے۔

یہ ہمارے اسلوب ہیں، اصول ہیں۔ ہم ان کو مر کر بھی بدلنا چاہیں تو شاید بدل نہیں سکتیں۔ بس اپنے حصے کے بیج ہی بونے ہیں تاکہ کچھ پودے محبت اور انصاف کے نمودار ہوں اور وہ اپنے بیج بوئیں اور یہ سلسلہ تھم نہ سکے۔

ایک مرد کے ہاتھوں مریم نواز جیسی طاقت ور عورت کی توہین ہو یا ڈی آئی خان کی پندرہ سالہ لڑکی کی، جس کو سر عام سرتاپا برہنہ کر کے گاؤں گھمایا گیا ہو، ان معاشروں میں تشدد کی مخالفت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہاں صرف ان مردوں کو ہی نہیں ان عورتوں کو بھی للکارنا فرض ہے جو سماج کے ایسے پرتشدد زاویوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ خود مریم نواز نے بھی کبھی پدرشاہی نظام کو نہیں للکارا، عورتوں کی جدوجہد سے فائدہ اٹھانے والی عورتوں نے بھی کبھی ان عورتوں کو یاد کرنے کی جسارت نہیں کی جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے اپنی عزتیں، سکون اور جانیں تک دیں۔ ماضی میں خود مریم نواز کے کردار پر ان کے عورت ہونے کی وجہ سے کیچڑ اچھالنے والے آج ان کے ہمراہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی جماعت کی خواتین کارکنان بھی آج جدوجہد کرنے والی عورتوں پر کیچڑ اچھالتی ہی نظر آتی ہیں۔ خود عورتیں، تشدد اور جبر سہتی ہیں مگر وہ جدوجہد کرنے والی عورتوں سے نالاں نظر آتی ہیں۔ وہ تشدد کرنے والے شوہر کو ڈنڈا دینے والی عورت کو پوجتی ہیں مگر متشدد کے ہاتھ سے طاقت نوچنے والی خواتین کو بد سے تشبیہ دیتی ہیں۔

عورت مارچ یا اس جیسے دیگر موضوعات پر لکھنے اور احتجاج پر جانے کے بعد مجھ سے میری سہیلیاں نالاں رہتی ہیں۔ ایسے جیسے ظالم اور جابر نظام کوئی مقدس گائے تھی جس کی شان میں میں نے توہین کی ہو۔ شاید یہی غلامی ہے جو ظالموں نے قدس اور عبادت کے دھوکے میں مظلوموں کے اذہان میں ثبت کر دی ہے۔ اس کو احسان فراموشی کا دوسرا لقب بھی دیا جاسکتا ہے مگر سمجھنے کی بات ہے۔ قیدی پرندوں کو پنجرہ ہی آسمان معلوم ہوتا ہے جس میں آج بھی اس ملک کی طاقتور و کمزور عورتیں مقید ہیں۔ تشدد تب تک تشدد ہونے کی حیثیت نہیں رکھتا جب تک ان پر خود نہ ہو، کسی کی جان نہ جائے۔ نر جان جانا بھی کوئی اندوہناک واقعہ نہیں۔ ہر روز بیسیوں کی جان جاتی ہے، فرق تب بھی نہیں پڑتا۔ اس ملک میں صرف مردوں کو ہی صحیح تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہیں بلکہ عورتوں کو بھی اپنی اصل حیثیت، توقیر اور وقعت سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کو نہیں معلوم ان کے حقوق ان کو جبر سے آزادی دلا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments