نور مقدم کیا ایک تاریک رات کا آ غاز ہے؟


ہمارے آس پاس جب بھی کوئی لڑکی موت کے گھاٹ اتاری جاتی ہے تھوڑے دن کے لیے شور مچتا ہے۔ دو تین اطراف سے ایک آوازیں اٹھتی ہیں۔ ہمیشہ ایک جیسی باتیں دہرائی جاتی ہیں اور پھر لوگ اپنی ذاتی پروموشن میں لگ جاتے ہیں۔ ہمیشہ بات مردوں کو گالیاں اور کوسنے دینے سے لے کر ملک کے ناقص قانون تک جاتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے دانش مند طبقے اور مخصوص اذہان نے لڑکیوں کو کوئی مت ( نصیحت) نہ دینے کی قسم اٹھا رکھی ہے کہ اس اندھیر نگری میں آدھا نہ سہی پچیس فیصد قصور تو ان کا بھی ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بچیوں کے تحفظ کے اقدامات کی کھچ اڑا اڑا کے لڑکیوں کو اب بہت آسان اور سہل رسائی بنا دیا ہے۔ اب سے چند دہائیاں پہلے تک لڑکی کی کوئی حیثیت کوئی وقار ہوتا تھا۔ منگنی کے بعد بھی منگیتر کی رسائی اتنی آسان نہیں تھی۔ لڑکی خاصے کی چیز ہوا کرتی تھی۔ اب تو یہ حالت ہے کہ ادھر رابطہ ہوا نہیں ادھر لڑکی لڑکے کے بستر میں پہنچ جاتی ہے۔ اپنی لذت اندوزی کا حق وصول کرنے کے لیے۔ جب یہ صورتحال ہوگی تو استعمال کرنے والا مولی گاجر کی طرح کاٹے گا بھی۔

جنس واحد چیز ہے جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے عورت یا مرد ناقابل تسخیر گردانے جاتے ہیں۔ اور یہ فارمولا ہر انسانی جاتی پہ یکساں لاگو ہوتا ہے چاہے کوئی اسے تسلیم کرے یا اس سے ہزار بار اختلاف کرے۔ ابھی مئی کے اواخر میں گلگت بلتستان جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے گروپ میں ایک سو دس کے قریب لوگ تھے۔ جن میں کچھ جوڑے اپنے بچوں سمیت تھے کچھ مردانہ اور زنانہ گروپ تھے۔ ان میں ایک گروپ مخلوط تھا جانے کہاں کی لڑکیاں تھیں جو ان نوجوانوں کے ساتھ آ گئی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نے تو باقاعدہ بس کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی۔ اور پھر اسی گروپ کے ایک مرد سے تھپڑ بھی کھائے۔ ایک عجیب سا احساس رائیگانی مجھے ستاتا رہا۔ کیا ان کے والدین کو خبر ہے کہ ان کے بچے کہاں ہیں؟

کیا کر رہے ہیں؟ کس کے ساتھ ہیں؟ ان پر کیا بیت رہی ہے؟
اگر والدین روک ٹوک کرتے ہیں تو کیا وہ غلط کرتے ہیں؟

کیا اس روک ٹوک کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی اولاد پہ قابض ہو گئے ہیں اور اسے غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یا اس روک ٹوک کا مطلب اس بے پناہ غضب ناک سماج میں اپنی سی حفاظت کی کوشش ہے؟

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں پابندیوں کے حوالے سے اپنے والد، بھائی یا شوہر کا نام لے رہی ہوتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ اگر آپ کسی جرم کی شکار ہوجاتی ہیں اور ہسپتال یا تھانے کچہری میں پہنچا دی جاتی ہیں تو وہاں آپ کے ورثاء کے بارے میں جو سوال کیا جائے گا کہ وہ کدھر ہیں؟ ان ورثاء سے مراد کون لوگ ہیں؟ کیا آپ کے وہ دوست قانونی طور پہ آپ کے وارث ہیں جو آپ کو آپ کے محافظ رشتوں کے خلاف ہر وقت بھڑکاتے رہتے ہیں؟

کیا آپ کے دوست آپ کی وجہ سے تھانے کچہری کا سامنا کریں گے؟
کیا آپ کے ان دوستوں کی آپ کی وجہ سے بدنامی ہوگی؟
کیا انہیں گھر سے باہر نکلتے وقت لوگ طنزیہ نظروں سے گھوریں گے؟
نہیں کبھی بھی نہیں۔
اور آپ کا جواب بھی یہی ہو گا۔

وہ رشتے جن کے ساتھ خونی اور قانونی طور پہ آپ جڑے ہیں وہ آپ کے ایسے کسی بھی فعل سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رشتے آپ پہ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا مقصد قید کی بجائے آپ کی حفاظت ہوتا ہے۔

اگر وہ لڑکی اس وقت کھڑکی سے کود کر خودکشی کر لیتی تو کیا ہوتا؟
زیادہ سے زیادہ دو دن شور مچتا اور بس۔

لہذا یہ زندگی ہماری ہے۔ اس کی حفاظت ہم نے خود کرنی ہے۔ اسے وقار ہم نے خود دینا ہے۔ اسے قابل احترام ہم نے خود بنانا ہے۔

ہم یہ سارے کام سمیت اپنے جسم کے دوسروں پر چھوڑ دیں گے تو دوسرے اس کا استعمال اپنی مرضی سے کریں گے۔
اگر ہمارا جسم ہے تو مرضی بھی ہماری ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments