پاکستانی کشمیر میں انتخابات: پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی، (ن) لیگ کا نتائج تسلیم کرنے سے انکار


غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل کی ہے جب کہ پیپلز پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں حسبِ توقع وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے اور وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

اتوار کے روز ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے 45 میں سے 44 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل کی ہے جب کہ پیپلز پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

مسلم لیگ (ن) چھ نشستیں حاصل کر سکی۔ مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے حصے میں ایک ایک نشست آئی ہے۔

اس طرح 53 رکنی ایوان میں کسی بھی جماعت کو حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 27 نشستیں درکار ہیں۔

پی ٹی آئی براہِ راست 25 نشستیں حاصل کرنے کے بعد خواتین کی پانچ میں سے تین مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے جب کہ ٹیکنو کریٹ، علماء و مشائخ اور سمندر پار کشمیریوں کے لیے مختص نشستوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی واضح ہے۔

اس طرح پی ٹی آئی قانون ساز اسمبلی میں 31 نشستوں کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل کرلے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لیے کسی اتحاد کی ضرورت نہیں رہی لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ ایک ایک نشست والی مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوں گی۔

پی ٹی آئی میں وزارتِ عظمیٰ کے تینوں متوقع امیدوار بیرسٹر سلطان محمود، تنویر الیاس اور انوار الحق اپنی اپنی نشستیں جیت چکے ہیں۔ تینوں امیدواروں کے درمیان انتخابات سے پہلے ہی کشمکش شروع ہو گئی تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت سازی کے مرحلے پر یہ کشمکش اپنے عروج پر رہے گی۔

گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ووٹنگ کی شرح میں کمی آئی

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ پول ہونے کی شرح 58 فی صد رہی۔ 2016 کے انتخابات میں یہ شرح 65 فی صد تھی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ چھ لاکھ 13 ہزار 590 ووٹ حاصل کیے جن کی شرح 32 فی صد کے قریب بنتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے چار لاکھ 91 ہزار 91 ووٹ حاصل کیے جس کی شرح 25 اعشاریہ چھ فی صد ہے۔

پاکستان پیپلز ہارٹی کو تین لاکھ 49 ہزار 895 ووٹ ملے جن کی شرح 18 اعشاریہ دو فیصد رہی جب کہ مسلم کانفرنس کو آٹھ فی صد یعنی ایک لاکھ 53 ہزار ووٹ ملے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ پول ہونے کی شرح 58 فی صد رہی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ پول ہونے کی شرح 58 فی صد رہی۔

پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان کی مقامی شاخ نے 94 ہزار 487 ووٹ حاصل کیے جس کی شرح پانچ فی صد کے قریب بنتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ “میں نے نتائج تسلیم نہیں کیے اور نا کروں گی۔ میں نے 2018 کے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے اور نا اس جعلی حکومت کو مانا ہے۔ دھاندلی پر کیا لائحہ عمل ہو گا، جماعت جلد فیصلہ کرے گی۔”

انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے بہت اچھا الیکشن لڑا اور سخت مقابلہ کیا۔ ریاست اور طاقت کے تمام سینٹرز اور دھاندلی کا یوں مقابلہ کرنا آسان نہیں۔

 

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی پر دھاندلی اور تشدد کرانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کی گئی اور الیکشن کمیشن اس کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔

کوئی آزاد امیدوار کامیاب نہ ہو سکا

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کوئی بھی آزاد امیدوار کامیاب نہ ہو سکا لیکن آزاد امیدواروں نے ایک لاکھ 33 ہزار ووٹ حاصل کیے جو پول شدہ ووٹوں کا سات فی صد ہیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والی گیارہ خواتین امیدواروں میں سے صرف ایک کو کامیابی ملی۔

کامیاب ہونے والی شاہدہ صغیر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ان کے شوہر صغیر چغتائی الیکشن سے کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ شوہر کی موت کے بعد تحریک انصاف نے انہیں اسمبلی کی نشست کے لیے نامزد کیا تھا۔

پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی 12 نشستوں میں سے نو پر پی ٹی آئی کے امیدوارں کو کامیابی ملی۔ مسلم لیگ (ن) کو مہاجرین کی دو جب کہ پیپلز پارٹی کو صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔

انتخابات کے دوران مجموعی صورت حال پر امن رہی لیکن کوٹلی اور باغ کے علاوہ گوجرنوالہ میں کہیں کہیں تصادم کے واقعات رونما ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اسماعیل گجر نے گوجرانوالہ میں انتظامیہ پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔

ضلع کوٹلی کے علاقے چڑھوئی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں پی ٹی آئی کے دو کارکن ہلاک ہوئے۔

انتخابات میں حصہ لینے والی گیارہ خواتین امیدواروں میں سے صرف ایک کو کامیابی ملی۔
انتخابات میں حصہ لینے والی گیارہ خواتین امیدواروں میں سے صرف ایک کو کامیابی ملی۔

ضلع باغ کی ایک نشست کے دو پولنگ اسٹیشنز پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے بعد پولنگ روکی گئی جب کہ دو پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ سرے سے شروع ہی نہ ہو سکی۔ الیکشن کمیشن نے ان چار پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دے دیا تاہم شیڈول کا اعلان بعد میں ہو گا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن سردار غضنفر خان نے بتایا کہ ریٹرنگ آفیسر باغ کی رپورٹ پر ایل اے 16 باغ تین کے نتائج روک لیے گئے ہیں۔

پولنگ ختم ہونے کے بعد بعض انتخابی حلقوں کے نتائج میں تاخیر پر مسلم لیگ (ن) نے تشویش کا اظہار کیا تھا اور پارٹی کے امیدوار اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم راجا فاروق حیدر نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ نتائج کیوں نہیں آ رہے۔

راجہ فاروق حیدر کو دو میں سے ایک نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار دیوان علی چغتائی سے شکست ہوئی ہے جب کہ دوسری نشست پر انہوں نے چند سو ووٹوں کے فرق سے پیپلز پارٹی کے امیدوار اشفاق ظفر کو شکست دی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments