بکرا منڈی تے نال بیوپار



ہیلو کہاں ہو؟ ، گھر پر ہوں اور کہاں ہو سکتا ہوں، اچھا باہر آؤ شہر جانا ہے، ٹھیک ہے آتا ہوں، ایک دوست کی فون کال پر حج والے دن لبیک کہتا ہوا گیٹ سے باہر نکلا تو سامنے رکشے میں دو عدد بکرے اور ایک چھترا بیٹھا ہوا تھا، اور یہ میرا دوست تھا، ہاں کہاں جانا ہے؟ شہر تک جانا ہے، بھائی شہر میں الو پیاز بکتے ہیں، اس کے لئے منڈی جانا پڑے گا، بھائی حج والے دن میں ایسی گندی جگہ نہیں جا سکتا، او گنہگار انسان میں بکرا منڈی کی بات کر رہا ہوں، ہاں وہاں چلنے کی بات کرو نا، کوئی مسئلہ نہیں چلتے ہیں۔

میں زندگی میں پہلی بار منڈی جا رہا تھا، ہر سال قربانی کا جانور گاؤں سے آ جاتا ہے، اس لئے کبھی ضرورت پیش نہیں آئی، میرا دوست شہر کا رہائشی ہے، سرگودھا ویسے آب اتنا بھی بڑا نہیں کہ اسے شہر کہا جائے، اس نے دو بکرے بیچنے تھے، بیوپاری نہ ہونے کی وجہ سے منہ بیوپاریوں والے بنانے پڑے، پر پھر بھی کتنا سا منہ بنایا جا سکتا تھا اور منہ بنانا تو گھریلو عورتوں کا کام ہے، خیر منڈی پہنچ گئے۔ عورتوں کی نہیں بکروں کی۔

منڈی کے اندر داخل ہونے کے لئے جانوروں کی قطاریں تھیں، جن میں کچھ نے تو شلوار قمیض بھی پہن رکھا تھا، پہلے یہ خیال کیا گیا کہ ایک لمبا سیدھا چکر منڈی کا لگایا جائے تا کہ سب ہمارے جانور دیکھ لیں، لیکن زمینی حالات بارشوں کی وجہ سے موافق نہیں تھے، اچھلنے والے کیچڑ سے بھی زیادہ کیچڑ منڈی میں موجود تھا، جیبوں اور جسم کے نازک حصوں کا خیال رکھتے ہوئے ایک لمبا چکر لگایا اور اپنی ایک مطلوبہ قیمت بھی جگہ جگہ بتاتے رہے تاکہ لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہو سکے، بکرے اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ منڈی میں چلتے ہوئے ایک دفعہ تو مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں بکرے کو پکڑ کر نہیں بکرا مجھے پکڑ کر کھینچ رہا ہے، اور اوپر سے کیچڑ کی وجہ سے ایسا ممکن بھی رہا تھا۔

کیچڑ کی منڈی میں پاؤں تو پھسل رہا تھا پر گاہک بالکل پھسلنے کے موڈ میں نہیں تھے، شاید ایک وجہ تو ہمارا اناڑی پن بھی ہو سکتا ہے، جس کے بکرے تھے اس نے تو ظاہر بات ہے قیمت لگانی تھی یہ مصر کا بازار تو نہیں تھا کہ لوگ قیمت طے کرتے، اس لئے جن لینے والوں سے میں ڈیل کر رہا تھا، قیمت ذرا بھی کم نہیں کرتا تھا اور ایسے میں پھر تعلق بنتا ہے گاہک نہیں، پنجابی زبان میں گفتگو کرنا اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ میں گاؤں سے آیا ہوں۔

قیمت بتا بتا کر زبان اتنی ٹیڑھی ہو چکی تھی کہ بعض دفعہ پکڑ کر سیدھی کرنی پڑتی تھی، ایک دو چکر لگانے کے بعد ہم ایک جگہ سکون سے کھڑے ہو گئے، تاکہ لوگوں کو بھی کھڑا کیا جا سکے، بکروں کی تفصیل بھی بتا دیتا ہوں ہو سکتا ہے آپ کا دل بھی بن جائے، ایک بکرا اچھا خاصہ تھا، اور دوسرا خاصہ ٹیڈی تھا، قیمت کے علاوہ جو جملہ سب سے زیادہ دہرایا گیا، ”دوندا وی اے تے خصی وی اے“ ( دو دانت ہیں اور خصی بھی ہے ) اور دوسرے لفظ پر لوگوں کے چہرے پر عجیب سے مسکراہٹ بھی محسوس کی جا سکتی تھی، لیکن ایک صاحب کہنے لگے مجھے آنڈو (جو خصی نہ ہو) چاہیے، میں نے کہا بکرا؟ ، کہنے لگے جی جی بکرا ہی چاہیے، میں نے ایویں دل میں کہا گھر کے لئے تو نہیں چاہیے؟ خیر اچھی بات یہ تھی کہ منڈی میں خواتین کو بھی دیکھا گیا، پتا نہیں وہ وہاں کیا کر رہی تھی، حالانکہ یہ تو بکرا منڈی تھی، ان کے لئے منڈی تو کہیں اور لگتی ہے۔

پوچھنے والوں کے بھی کیا کہنے ایک صاحب کہنے لگے ”کس طرح لائے نے“ (کس طرح لگائے ہیں ) میں کہیا آمب تے نئی لائے، بکرے نے یار ”(کہا آم تو نہیں لگائے بکرے ہیں یار ) ، ہنس کر کہنے لگا“ پچھ پچھ کے ہن تے ہوش وی نئی ریا کے لین کی آیا سی ”( پوچھ پوچھ کر آب تو ہوش بھی نہیں رہا کہ لینے کیا آئے تھے ) بڑے جانور زیادہ تھے اور انہیں لینے والے بھی زیادہ تھے، شاید رشوت کا پیسہ بڑوں کی قربانی سے پاک ہوتا ہو۔

چار گھنٹوں گزرنے جانے کے بعد تو میں خود کو سچ مچ ایک بیوپاری ہی سمجھ رہا تھا، پیروں کے حالات اس قدر گندے ہو چکے تھے کہ وہ دیکھ کر مجھے اپنا اندر زیادہ صاف نظر آ رہا تھا، کچھ گاہکوں سے میری دوستی سے ہو گئی تھی، بار بار آ جاتے تھے اور ان سے باتیں کرنا اچھا لگتا تھا، ہمارے گاؤں کے ارد گرد کے لوگ تو تعلقات نکلوانے تک آ گئے تھے، پر جب میں انہیں اپنے دوست کی طرف اشارہ کر کے کہتا کے مالک ہے تو بیچارے چپ ہو جاتے، اندر سے یہی کہتے ہوں گے کہ تے فیر تو کی خصی بکرے آر نال نال کر ریا جد تیری مندا کوئی نئی تے ( تو پھر تم کیا خصی بکرے کی طرح ساتھ ساتھ کر رہے ہو جب تمہاری کوئی سنیا نہیں ) ۔

بیوپاری دھڑا دھڑ جانور بیچ رہے تھے، اور قیمتوں کا تعین وہ خود کر رہے تھے، جانور تو لوگوں کے لئے سینٹ کا ٹکٹ بنے ہوئے تھے، لیکن یہ کوئی اسمبلی نہیں تھی، خیر وہ بھی منڈی سے کم سے نہیں ہوتی، ہر قسم کا جانور جس کی قربانی جائز تھی وہاں موجود تھا سوائے گدھوں کے جس کو سیاست میں قربانی دینی پڑتی ہے، آب ایک گاہک میرے دوست کے پاس کھڑا تھا، دیکھنے میں یہی لگ رہا تھا گاہک پکا ہے، اور مالک کچا ہے، کچھ ایسا ہی ہوا جس میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کی بحث جاری تھی، جس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ منڈی والوں کا کمیشن کھایا جائے، جس کے لئے خریدار منڈی سے باہر ہمارا انتظار کریں گے اور ہم بکرے بنا پرچی کے باہر لے جائیں گے، جس سے کم از کم سولہ سو بچایا جا سکتا تھا، اور یہ سولہ سو طے شدہ قیمت کا حصہ تھا۔

ٹک لگانا اس قوم کی فطرت ہے وہ بکرے کی کھال کو لگے یا حقدار کی کھال کو لگے، مجھے ایک پرچی ایجنٹ نے کہ دیا تھا کہ یہ پالیسی صرف شریف ہی کامیاب کر سکتے ہیں تم سے نہ ہو پائے گا، لیکن مالک کی اجازت سے ہم منہ چھپا کر نکلنے لگے تو ننگے ہو گئے، میرے دوست نے حسن نواز کی طرح خود کو پھنسا لیا کہنے لگا کہ بکرے محلے میں بیچ دیے، واپس لے کر جا رہا ہوں، پرچی والا بھی ثاقب نثار کی طرح یہی سننا چاہتا تھا کہنے لگا آب تو پرچی لازمی قرار دی جاتی ہے، اگر سیل نہ ہوتا تو پرچی ضروری نہ تھی، آخر باقی شریفوں نے تو ٹکہ واپس نہیں کیا ہمیں سولہ سو دینا پڑا اور بکرے چھڑانے پڑے، جس کے لئے ہم خود قربانی کے بکرے بن گئے، کبھی کبھی قربانی کے بکروں کو بچانے کے لئے بھی قربانی کا بکرا میدان میں اتارنا ضروری ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments