نور مقدم قتل کیس: نور مقدم کا سیل فون برآمد، ملزم کے والدین کو جیل بھجوا دیا گیا

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


نور

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں گرفتار چار افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔

جن افراد کو عدالت کی طرف سے جیل بھیجنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ان میں اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی اور دو گھریلو ملازمین محمد افتخار اور جمیل احمد شامل ہیں۔

ان چاروں ملزمان پر نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں اعانت مجرمانہ، حقائق چھپانے اور مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع نہ دینے کے الزامات ہیں۔ منگل کے روز دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ملزمان کو سخت سکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔

جوں ہی مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چاروں ملزمان تفتیش کے سلسلے میں پولیس کو مطلوب نہیں ہیں لہذا عدالت ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دے۔

عدالت کے استفسار پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ان چاروں ملزمان کی حد تک پولیس نے اپنی تفتیش مکمل کر لی ہے۔

عدالت نے ملزمان کے وکیل رضوان عباسی سے استفسار کیا کہ کیا وہ اس پر بحث کرنا چاہتے ہیں جس پر ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ اب پولیس خود ان ملزمان کو جیل بھیج رہی ہے اس لیے انھیں اس معاملے پر کوئی بحث نہیں کرنی۔

تفتیشی افسر کے بیان کے بعد عدالت نے ان چاروں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

عدالت نے جب ان ملزمان کو جیل بھیجنے کا حکم جاری کر دیا اور اس حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے تو تھوڑی دیر کے بعد ملزمان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’مائی لارڈ میرے موکلوں کو ڈسچارج کریں‘ جس پر جج نے جواب دیا ’ہم تو اب انھیں جیل بھیج چکے ہیں۔‘

اس جواب کے بعد ملزمان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ کم از کم ان کی اس استدعا کو اپنے حکم نامے کا حصہ ہی بنا لیں جس پر عدالت نے ملزمان کے وکیل کی استدعا کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنا دیا۔

ملزمان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ باہر رش بہت زیادہ ہے اس لیے کمرہ عدالت میں ان کی ا ن کے موکلوں کے ساتھ ملاقات کروائی جائے۔ ملزمان جنھیں پولیس اہلکار جیل لے کر جا رہی تھی انھیں عدالت کے حکم پر واپس کمرہ عدالت میں لایا گیا جہاں ان کی وکلا کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات کروائی گئی۔

قتل کے مقدمے کی تفتیش میں پیش رفت

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایس پی سٹی رانا وہاب کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے قبضے سے مقتولہ نور مقدم کا موبائیل فون برآمد کرلیا گیا ہے جبکہ ملزم کے زیر استعمال موبائل فون ابھی برآمد نہیں ہوا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مقتولہ کا موبائل فون لاک تھا، تاہم فرنزک ٹیسٹ کے لیے اسے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگلے چند روز میں اس موبائل میں واٹس ایپ سمیت جتنی ایپس تھیں جن کو مقتولہ استعمال کرتی رہی ہے اس کی رپورٹ آ جائے گی جو کہ مقدمے کی تفتیش میں معاون ثابت ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ملز م ظاہر جعفر کے زیر استعمال موبائل فون کو برآمد کرنا ابھی باقی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی ملزم کے قبضے سے ان کے زیر استعمال موبائل فون برآمد کر لیا جائے گا۔

ملزم ظاہر جعفر کے جرم کے اعتراف کے بارے میں ایس پی سٹی کا کہنا تھا کہ پولیس کی تحویل میں ملزم کے اعتراف جرم کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ملزم مقامی مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لے تو اس کی ایک قانونی حثیت ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہیں بھی کرتا تو پھر بھی پولیس کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جن سے جرم ہونا ثابت ہوتا ہے۔

نور مقدم کے گھریلو ملازم کے بیان کے بارے میں جس میں ان کا کہنا ہے کہ قتل کی واردات سے پہلے مقتولہ نے اپنے گھر والوں سے ڈھائی لاکھ روپے منگوائے تھے، کے بارے میں ایس پی سٹی کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تفتیشی ٹیم نے مقتولہ کے والد سے رابطہ کیا ہے اور وہی اس بارے میں پولیس کو بیان دیں گے جس کی روشنی میں اس مقدمے کی تفتیش کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم نے جائے حادثہ کے قریبی گھر کے باہر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی حاصل کی ہے جس میں پولیس اہلکار کے بقول دیکھا جاسکتا ہے کہ مقتولہ نور مقدم نے ملزم کے گھر سے نکل کر ایک سکیورٹی گارڈ کے کیبن میں پناہ لی ہے تو تھوڑی دیر کے بعد ملزم ظاہر جعفر ادھر آ جاتا ہے اور وہ نور مقدم کو زبردستی اور مبینہ طور پر تشدد کرتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے گھر کے اندر لے جاتا ہے۔

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو میں کچھ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ بھی نظر آ رہے ہیں جو کہ اس گلی کے مختلف گھروں پر ڈیوٹی دے رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس لڑکی کو بچانے کے لیے آگے نہیں آیا۔

پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس ویڈیو میں نظر آنے والے سکیورٹی گارڈوں کے بیانات بھی قلمبند کیے ہیں۔

ملزم ظاہر جعفر کو 28جولائی کو دوبارہ مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی مختلف پہلوؤں پر تفتیش جاری ہے اس لیے امکان یہی ہے کہ عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp