پرمینائیڈیز کا خواب


یہ کہانی ہے یونان کے اس فلسفی کی جس نے آج سے تقریباً تین ہزار پہلے بہت ہی اہم سوال اٹھا کر سب کو حیران کر ڈالا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ ”ہے“ کا کیا مطلب ہے؟ دراصل اس کا یہ سوال اس کے دیکھے گئے ایک خواب کی پیداوار ہے۔

ایک رات پرمینائیڈیز خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہ ایک سیاہ رات میں ایک خوفناک گھر میں پھنس جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات ایک دیوی سے ہوتی ہے جو اس کو سچ کی روشنی کا راستہ تلاش کرنے کو کہتی ہے۔ دیوی اسے بتاتی ہے کہ زندگی کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک ”ہے“ اور دوسرا ”نہیں ہے“ کا راستہ۔

” ہے“ کا راستہ سچائی کا راستہ ہے جو اندھیرے سے نکلنے کا راستہ ہے۔ ”نہیں ہے“ کا راستہ ایک غیر حقیقی راستہ ہے۔ یہ کچھ نہ ہونے کا راستہ ہے اور اس راستہ پر چل کر کچھ بھی نہیں جانا جاسکتا۔ یہ وہ راستہ ہے جو کبھی بھی روشن نہیں ہو سکتا ، لہذا یہ اندھیرے اور نہیں ہے کا راستہ ہے۔

دیوی پرمینائیڈیز کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ وہ ”ہے“ کا راستہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اگر ”نہیں ہے“ کا راستہ اختیار کیا جائے گا تو وہ اپنے خیالات سے محروم ہو جائے گا کیوں کہ خیالات ”نہیں ہے“ کے بارے میں نہیں آتے بلکہ ہمیشہ جو ”ہے“ اس کے بارے میں آتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خیالات اور ہونا ایک ہی بات ہیں۔

دیوی نے پرمینائیڈیز کو ایک اور راستہ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ”اوپینین“ کا راستہ فنائیت کا راستہ ہے۔ فنائیت کے راستہ کے مطابق ”ہے“ اور نہیں ہے ”کے راستے ایک جیسے ہی ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک عام فانی راستے سے بھٹک جاتا ہے اور اپنی حقیقی وجود کو بھول جاتا ہے۔ وہ جو“ اوپینین ”کے راستے پر چلتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وجود کے دو مختلف مزاج ہوتے ہیں اور یوں وہ ہمیشہ اپنے وجود کو فراموش کرنے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔

اس بات سے پرمینائیڈیز وجود کے نیچر کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وجود ہمیشہ خالص اور ناقابل تبدیل ہوتا ہے۔ اگر وجود تبدیل ہو جائے تو اس کو ”نہیں“ ہونا پڑے گا جو کہ ناممکن ہے کیوں کہ وجود نام ہی ”ہونے“ کا ہے۔ لہذا تمام تغیر ایک فریب ہے اور اس کائنات کی اصل حقیقت ٹائم لیس اور نا قابل تغیر ہے۔

پرمینائیڈیز کے اس فلسفہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بحیثیت استفسار کرنے والے کے ہمیں اس بات سے کام ہونا چاہیے کہ ”کیا ہے“ اور اس بات پر وقت برباد نہیں کرنا چاہیے کہ کیا ہو سکتا ہے، یا کیا اب تک نہیں ہوا۔

An excerpt from Neil Turnbull ’s book ”Get a Grip on Philosophy“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments