وزیراعظم آزاد کشمیر۔ سرپرائز مل سکتا ہے


آزاد کشمیر میں انتخابات اس وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں جب پاکستان میں انتخابات کو لگ بھگ تین سال کا عرصہ بیت چکا ہو یہی وجہ ہے کہ وفاق میں موجود سیاسی جماعت ہی کشمیر میں انتخابات جیتتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ہو یا آمریت، کشمیر میں حکومت نے مدت پورا کرنا ہی ہوتی ہے۔ اس بار انتخابی مہم کی گہما گہمی کچھ زیادہ ہی تھی ’تمام سیاسی جماعتوں نے مظفرآباد پر حکومت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ خطے میں اس سے قبل ایسی گہماگہمی نہیں دیکھی گئی۔

45 میں سے 44 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل کرلی ہے جب کہ پیپلز پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ

2016 میں دو تہائی اکثریت والی جماعت چھے سیٹوں تک محدود ہو گئی۔ الیکشن تک برسر اقتدار رہنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بالکل ویسی ہی ناکامی جس کا سامنا گلگت بلتستان میں کیا تھا۔

پی ٹی آئی براہ راست 25 نشستیں حاصل کرنے کے بعد خواتین کی پانچ میں سے تین مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے جب کہ ٹیکنو کریٹ، علماء و مشائخ اور سمندر پار کشمیریوں کے لیے مختص نشستوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی واضح ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی قانون ساز اسمبلی میں 32 نشستوں کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لیے کسی اتحاد کی ضرورت نہیں رہی لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ ایک ایک نشست والی مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوں گی۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ پول ہونے کی شرح 58 فی صد رہی جو 2016 کے انتخابات میں 65 فی صد تھی۔

آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کوئی بھی آزاد امیدوار کامیاب نہ ہو سکا لیکن آزاد امیدواروں نے ایک لاکھ 33 ہزار ووٹ حاصل کیے جو پول شدہ ووٹوں کا سات فی صد ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی 11 خواتین امیدواروں میں سے صرف شاہدہ صغیر جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور انہیں ان کے شوہر صغیر چغتائی کی الیکشن مہم کے دوران حادثاتی موت کے بعد امیدوار نامزد کیا گیا تھا کامیابی حاصل کی بقیہ 10 خواتین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت بننا اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ الیکٹیبلز ہوا کا رخ عام لوگوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ دھڑا دھڑ پی ٹی آئی کی جانب پرواز سے پتہ چل گیا تھا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔

انتخابی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو الیکٹیبلز فصلی بٹیروں کی طرح حکومتی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر انتخابات میں بھی اسی روایت پر عمل کیا گیا۔ مسلم کانفرنس، پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے ہیوی ویٹس تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں اصل طاقت سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ مضبوط دھڑے بندی اور برادری کی سیاست ہے جو ہر جماعت کے ساتھ نظریہ ضرورت کے تحت شامل ہو جاتے ہیں۔

عمران خان کے آخری جلسے نے بھی پانسہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے کشمیر پر بات کی اور فیصلے کا اختیار کشمیریوں کو دینے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران جارحانہ موقف اپنا کر کشمیری عوام کے دل جیت لیے تھے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے عوام اپنی تعمیر و ترقی کے لیے بھی عمران خان سے کئی توقعات لگا بیٹھے تھے۔

الیکشن سے کچھ دن قبل بین الاقوامی ادارے گیلپ پاکستان نے عوامی آراء پر مشتمل رپورٹ میں بھی پشین گوئی کی تھی کہ آزاد جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف واضح برتری سے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ سروے نتائج کے مطابق آزاد کشمیر کے 44 فیصد عوام نے انتخابات کے دوران تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے عزم کا اظہار کیا، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہیں۔ سروے نتائج کے مطابق 12 فیصد عوام نون لیگ جبکہ صرف 9 فیصد لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے حامی نکلے۔ یوں یہ دونوں جماعتیں مشترکہ طور پر صرف 21 فیصد عوام کی حمایت حاصل کر سکیں۔

اہم بات یہ ہے کہ اب آزاد کشمیر کا وزیر اعظم کون ہو گا۔ پی ٹی آئی میں وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوار بیرسٹر سلطان محمود، تنویر الیاس اور انوار الحق اپنی اپنی نشستیں جیت چکے ہیں۔ تینوں امیدواروں کے درمیان انتخابات سے پہلے ہی کشمکش شروع ہو گئی تھی اور جو کہ ان دنوں حکومت سازی کے مرحلے میں اپنے عروج پر ہے۔

9ویں مرتبہ ممبر اسمبلی بننے کا منفرد ریکارڈ قائم کر نے والے پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سیاسی بصیرت اور انتظامی تجربہ کے ساتھ ساتھ جٹ برادری اور حواریوں پر مشتمل درجن بھر ایم ایل اے کے ساتھ وزیراعظم آزاد کشمیر کے لئے لابنگ کرتے نظر آرہے ہیں۔

سردار تنویر الیاس بھی وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے تمام اہم دروازوں پر مسلسل دستک دے رہے ہیں۔ بھمبر سے چوہدری انوارالحق بھی مقتدر حلقوں کی اشیرباد سے وزارت عظمیٰ کے اہم ترین منصب پر انٹری مار سکتے ہیں۔ مظفر آباد سے خواجہ فاروق احمد کا نام بھی گردش کر رہا ہے۔ ڈھڈیال میرپور سے اظہر صادق کے نام کا قرعہ بھی نکل سکتا ہے، وزیر اعظم اس طرح کے سرپرائز دینے میں کمال رکھتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments