ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری


آج کا زمانہ کتاب کا نہیں بلکہ موبائل کا زمانہ ہے جس نے ہم کو مطالعہ سے دور کر دیا ہے اور ہماری نظریں سارا دن موبائل کی سکرین پر لگی رہتی ہیں۔ لیکن چند پرانے خیالات کے لوگ ابھی بھی کتاب پڑھتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم بھی ایک پرانی روح ہیں جس نے موبائل کے زمانہ میں کتاب کو اپنے دل سے لگایا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ موبائل پر بھی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور آپ کو ای۔ کتابیں دستیاب ہیں۔ بات درست ہے کہ آپ ای۔ کتابیں پڑھ سکتے ہیں لیکن موبائل نے ہم سے صبر بھی چھین لیا ہے۔ اس لیے جب بھی آپ موبائل پر کوئی ای۔ کتاب کھولتے ہیں تو چند الفاظ کے بعد آپ یو ٹیوب، فیس بک یا واٹس ایپ پر پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کتاب وہیں کے وہیں رہ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نئی جدید ٹیکنالوجی سے دور ہو جائیں بلکہ توازن پیدا کریں۔ کیونکہ ہم پرانی روح ہیں اس لیے ہمیں کتابیں پڑھنا، ان کو چھونا اور ان کو محسوس کرنا پسند ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کتب بینی نے ہم کو نکما کر دیا ہے ورنہ ہم بھی بندے تھے کچھ کام کے۔ ہمارے پاس اکثر کتابیں آتی رہتی ہیں اور ہمارے سرہانے تین چار کتابیں ہمیشہ دھری رہتی ہیں جن میں ہم فرصت کے لمحات میں غوطہ زن ہوتے رہتے ہیں۔

’ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری‘ نیئر مصطفیٰ کی افسانوں کی کتاب ہے جو عید کی چھٹیوں میں ہم تک پہنچی۔ ویسے تو کتاب پر بہترین تبصرہ وہ ہوتا ہے جو کتاب کو پڑھے بغیر دیا جائے۔ کتاب پڑھنے کے بعد جھوٹ لکھنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے لیکن کچھ کتابیں نہ صرف آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں بلکہ قلم اٹھانے کی بھی تحریک دیتی ہیں۔ ’ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جو آپ کو اپنے ساتھ لیے لیے پھرتی ہے اور آپ کے گرد خواب کا سا سماں باندھ دیتی ہے۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے یونٹ میں دس افسانے شامل ہیں، دوسرے میں آٹھ اور تیسرے میں چھ شامل ہیں۔

جیسے کہ کتاب کا نام ہے، ’ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری‘ ، ویسے ہی کتاب ہے جس میں ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی کہانیاں سنائی گئی ہیں۔ نیئر مصطفیٰ آج کے جدید دور میں سانس لیتا ہے اس لیے اس کی کہانیوں میں دور جدید کے مسائل اور کہانیاں موجود ہیں۔ ہر افسانہ اپنے اندر ایک جہاں لیے ہوئے ہے۔ اس میں بیشتر کہانیاں آپ نے 2008 تا 2011 تک لکھی ہیں جو اوائل جوانی کا دور ہے۔ تو افسانوں میں جوانوں کے مسائل اور یونیورسٹی کا منظر نامہ نظر آتا ہے۔ اوریجنل افسانہ ایک نئے ادیب کے مسائل کو بیان کرتا ہے اور ہر نیا ادیب انہی مسائل کا سامنا کرتا ہے جب اس کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تم نے خود لکھا ہے یا پھر۔ ؟

افسانہ ’سچ / جھوٹ‘ ایک بہترین افسانہ ہے جس میں عدالتی کارروائی میں بیانات کے ذریعے کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس افسانہ کا اسلوب بہت عمدہ ہے۔ نیئر مصطفیٰ میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جہاں رہتے ہیں اور جو دیکھتے ہیں اس کو کہانی میں ڈھال لیتے ہیں۔ نیئر مصطفیٰ کیونکہ ملتان کے رہنے والے ہیں تو ان کی زبان میں یہ جھلکتا ہے۔ وہ اپنے افسانے خالص اردو کی بجائے ملتان شہر میں بولنے والی اردو جو کہ سرائیکی، پنجابی اور اردو سے مل کر بنی ہے، اس کو استعمال کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ قاری کے قریب آ پائے ہیں اور ایک بہترین افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments