خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن پر سوالیہ نشان


تقسیم ہند سے پہلے انگریز سرکار نے بیوروکریسی بھرتی کے لیے 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت پبلک سروس کمیشن کو تشکیل دیا۔ جس کا مقصد بیوروکریسی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل لوگوں کا میرٹ کی بنیاد پر انتخاب شامل تھا۔ خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کو 1973 کے قانون کے تحت بنایا گیا۔ اور خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن آرڈینینس 1978 کے تحت چل رہا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت پبلک سروس کمیشن کے دائرے کار میں بیوروکریسی کے لیے میرٹ پر انتخاب اور گورنر کی سفارشات شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن نے 25 فروری 2021 کو صوبائی بیوروکریسی ( پی ایم ایس) میں بھرتی کا اشتہار دیا۔ ہر امیدوار نے 1500 روپے امتحان داخلہ فیس جمع کی۔ 9 مارچ کو کمیشن کی طرف سے ایک سیٹ پر 25 امیدواروں کو تحریری امتحان دینے کی پالیسی بنائی گی۔ ہر سیٹ پر 25 امیدواروں کی اہلیت پرکھنے کے لیے سکریننگ ٹیسٹ کی پالیسی متعارف کروائی گئی۔ خیبرپختونخوا میں سکریننگ ٹیسٹ کی پالیسی 2016 میں پہلی بار متعارف کروائی گئی تھی۔

2016 کے امتحان میں سکریننگ پاسنگ مارکس 40 فیصد رکھے گئے تھے جبکہ 2018 سکریننگ ٹیسٹ کے پاسنگ مارکس 20 فیصد رکھے گئے تھے۔ جبکہ اس دفعہ پاسنگ مارکس بہت زیادہ زون وائیز رکھے گئے۔ خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کے کردار نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کا انتخاب کا طریقہ کار واضح نہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے ممبر نوکر شاہی کے ریٹائرڈ ارکان سے لیے جاتے ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا انتخاب صرف اور صرف سفارش، ذاتی شناسائی، اور اپروچ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ افسران جن کا کام ملکی اداروں کے لیے قابل لوگوں کا انتخاب ہے وہ خود شفاف راستوں سے منتخب نہیں ہوتے۔ پبلک سروس کمیشن کا بہت اہم کردار ہوتا ہے لیکن افسوس اس لیول پر دیانت داری اور ذمہ داری کے تقاضے پورے نہیں ہوتے لہذا ملکی اداروں کی بھاگ دوڑ قابل لوگوں کی ہاتھوں میں نہیں جاتی۔ اس لیے بیوروکریسی کمزور اور نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ کیوں کہ اندر سے نظام کھوکھلے پن کا شکار ہے۔

سکریننگ ٹیسٹ پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ٹیسٹ کا معیار کسی بھی اعتبار سے معیاری نہیں تھا۔ کیوں کہ جنرل نالج کے نام پر عجیب و غریب سوالات پوچھے گئے۔ جو کسی طور پی ایم ایس لیول کی تعیناتی کے قابل نہیں تھے۔ صرف چند ملکوں کے کرنسی کے نام یاد کرنے سے کوئی علامہ بن سکتا ہے۔ اس لیول پر ذہنی لیول جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں معلومات کے نام پر قابلیت کی پہچان سمجھ سے بالاتر ہے۔

آئی کیو لیول جانچنے کے لیے زبان، منطق اور بنیادی حساب کے سوالات پوچھنے چاہیے۔ طلباء و طالبات کا کہنا تھا کہ مختلف آسامیوں پر تعیناتی کے لیے لاکھوں روپے کے عوض وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بھائی اور گروپ ملوث ہیں۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بھائی کی ویڈیو بھی جاری ہوئی تھی۔ لیکن افسوس کوئی نوٹس نہیں لیا گیا

جس کی وجہ سے طلباء میں شدید عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ حالیہ سکریننگ ٹیسٹ کے نتائج کے خلاف طلبہ گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ہے۔ لیکن نوجوان کی طاقت سے بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ الٹا طلبہ کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اشتہار کے بعد پالیسی کی تبدیلی کا اطلاق پرانے طلبہ پر ظلم اور نا انصافی ہے۔

دوسری طرف طلبہ سے 1500 روپے امتحان فیس کی مد میں وصول کیے گئے ہے جو کہ کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ جب سکریننگ ٹیسٹ کے نام پر شارٹ لسٹ ینگ کی گئی تو طلبہ کا حق واپس کرنا چاہیے۔ امتحان میں شرکت ہر طالب علم کا قانونی اور بنیادی حق ہے۔ اس حق سے طلباء کو محروم رکھ کر پبلک سروس کمیشن انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی۔ میرٹ اور مقابلے کے امتحانات میں شفافیت پبلک سروس کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments