مغربی ادب ۔ افلاطون سے پوسٹ مارڈن ازم تک (نویں قسط)۔


مغربی ادب۔ ماڈرن ازم کے دور میں

بیسویں صدی کا آغاز یورپ کی ادبی دنیا میں ’ازم‘ کی دنیا کے آغاز سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ انیسویں صدی کے آخر میں یکے بعد دیگر کئی ایک ادبی تحریکوں یا ازم کا یورپین ادب میں تعارف ہوا جنہوں نے ریئلزم اور نیچرل ازم کے زیر اثر ادبی تخلیقات کو روایتی اور فرسودہ قرار دے دیا۔ ان تحریکوں میں سمبل ازم، ایکسپریشن ازم، فیوچر ازم، سیورل ازم، دادا ازم اور ایگزسٹینشل ازم شامل تھیں جو ماڈرن ازم (جدیدیت) کی چھتری میں جمع ہو کر تمام تر مغربی ادب کو ایک نئے دور میں دھکیلتی چلی گئی اور یوں مغربی ادب ریل ازم اور نیچرل ازم (حقیقت اور فطرت پسندی) کے دور سے نکل کر ماڈرن ازم کے عہد میں شامل ہو گیا۔

اس دور میں ہونے والی سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور فلسفیانہ تبدیلیاں بھی اپنی شدت اور رفتار کی وجہ سے شاید اندرون خانہ کئی ایک نئے ادبی نظریات کا تقاضا رکھتی تھیں اسی لیے ادب کا یہ دور کئی اعتبار سے انقلابی ثابت ہوا۔ ماڈرن ازم کے اس عہد میں شعوری رو یعنی ’اسٹریم آف کانشیسنس‘ کے تحت تخلیقی ٹیکنیک کا بھی ادبی تجربہ کیا گیا اور کئی ایک انقلابی سماجی نظریات کو ادب کی زینت بنا دیا گیا۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ہی کئی ایک یورپین ممالک یعنی فرانس، اسپین، پرتگال، اٹلی، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، آسٹریا، ڈنمارک، رشیا حتی کہ برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ مل کر سامراجی قوت یعنی امپیریل پاور کا حصہ بن گئے اور انہوں نے کئی ایک افریقی، ایشیائی ممالک اور بحر الکاہل کے جزائر پر حملہ کر کے انہیں کنٹرول کر لیا۔ اس امپیریل ازم کے نتیجے میں خصوصاً نو آبادیاتی (کولونیل) علاقوں میں ایک مخالف امپیریل ازم بھی پیدا ہوتا چلا گیا اور پھر سیاسی محور کے بدل جانے سے دنیا دو بڑی جنگوں کے لپیٹوں میں آ گئی۔

پہلی بڑی جنگ جو 1914 سے 1918 کے درمیان ہوئی تھی وہ سراسر یورپین جنگ ثابت ہوئی کیو نکہ وہ یورپ کے ہی علاقوں میں لڑی گئی جس میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا۔ ہنگری، ترکی اور بلغاریہ شامل تھے تو دوسری جانب برطانیہ، فرانس، اٹلی، رشیا اور امریکہ جیسی طاقتیں تھیں۔ البتہ دوسری بڑی جنگ بلاشبہ گلوبل جنگ ثابت ہوئی کیونکہ اس جنگ کا میدان بیک وقت ایشیا، افریقہ، یورپ، آسٹریلیا، مڈل ایسٹ، بحر ہند اور بحر اوقیانوس بنا اور اس کا اختتام بھی ہیروشیما پر ایٹم بم کے گرنے سے ہی ہوا۔

یہ جنگ 1939 سے 1945 کے درمیان ہوئی جس میں ایک جانب جرمنی، اٹلی اور جاپان جیسی طاقتیں تو دوسری طرف برطانیہ، امریکہ، سویت یونین اور چین کی الائیڈ فورسز شامل تھیں۔ ان ہولناک جنگوں کی تباہ کاریوں اور پھر اس کے بعد چلنے والی طویل سرد جنگ (کولڈ وار) کے نتیجے میں کم و بیش پوری دنیا ہی نظریاتی اور جغرافیائی تقسیم کا شکار ہوتی چلی گئی۔

بیسویں صدی میں وقوع پذیر ہونے والے ان سیاسی واقعات نے جہاں اسے ’انسانی تاریخ کی بدترین تہذیب‘ کا عنوان دیا تو دوسری طرف صنعتی سماج کے تیز رفتار پھیلاؤ کے نتیجے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک کے بعد ایک انقلابات بھی آتے چلے گئے جنہوں نے ایک دوسرے رخ سے انسانی تہذیب کو سمیٹنا بھی شروع کر دیا۔ اسی صدی میں ٹیلی فون، ٹیلی گراف، الیکٹرک لائٹ، وائرلیس، آٹو موبائل، جہاز، سب میرین کی ایجاد سے ٹرانسپورٹیشن اور کمیونیکیشن میں اضافہ ہوا۔ 1920 میں ریڈیو اور پھر 1940 میں ٹیلی وژن ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔ 1950 سے 1960 کے دوران کمپیوٹر مشین بنانے کے تجربات شروع ہو گئے اور پھر میڈیکل سائنس میں نت نئی ریسرچ، دواؤں اور ویکسینیشن کی ایجاد نے مشکل بیماریوں کا علاج دریافت کیا اور انسانی زندگی کو طوالت عطا کی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی نے براہ راست انسانی زندگی کی فہم اور روحانی فکر پر خاطر خواہ اثر ات مرتب کیے۔ گیسٹالٹ سائیکالوجی کا ٹکڑوں کے بجائے ایک مکمل خیال سے معنویت کے حصول کا آئیڈیا، لیوائی اسٹارس کا انسانی سوسائٹی کو ’کوڈز‘ کی شکل میں سمجھنے کا خیال، فرائڈ کا انسانی شعور کے اڈ، ایگو اور سپر ایگو میں تقسیم کرنے کی سمجھ، کارل ینگ کا ’اجتماعی لاشعور‘ کو جاننے کا عمل، برگون کا حقیت یا ریئلٹی کو مائع قوت کی صورت میں انسانی شعور میں شامل ہونے والا فلسفیانہ آئڈیا، ہائی ڈگر کا فلسفہ وجودیت، آئین اسٹائین کا نظریہ اضافیت اور کال مارکس کی سماجی طبقات کو حل کرنے والی اقتصادی فکر نے مغربی ادب اور ادیبوں کو کئی ایک جدید فکری جہتوں سے روشناس کر دیا۔

بیسویں صدی کے آغاز تک نیچرل ازم اپنی بلند ترین صورت میں مغربی ادب میں موجود تھا اور اس ادب کے قاری ماڈرن ازم (جدیدیت) کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے مگر پھر سماجی، سیاسی، سائنسی اور فلسفیانہ فکر کے دھاروں نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی ایک فکری اسکولوں اور تحریکوں کی صورت میں سر اٹھانا شروع کر دیا اور ریل ازم اور نیچرل ازم ایک فرسودہ ادبی روایت کی طرح برتی جانے لگی۔ جوں جوں انتھروپولوجی، سوشیالوجی، سایکالوجی، فنامنالوجی، ریلیٹو ازم اور فلسفہ وجودیت جیسے فلسفیانہ نظریات ادب کا حصہ بنتے چلے گئے تو مغربی ادب کے قاری ایک نئی لغت سے آشنا ہو گئے جسے ’لٹریچر آف ائیڈیا‘ کا نام دیا گیا۔ پہلی اور دوسری بڑی جنگوں کی تباہ کاریوں نے جس نئی سماجی دنیا کو تخلیق کیا اس نے انسانی زندگی کی بقائی حیثیت اور مذہبی وسیکولر اخلاقیات پر پیچیدہ فلسفیانہ سوالات اٹھائے اور زندگی کی معنویت کو ادبی دنیا میں ایک نئے انداز سے پیش کیا۔

سمبل ازم کے زیر اثر لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں آئرش شاعر ولیم یٹس، فرانسیسی شاعر بوڈولیر، اسٹیفن ملامی، ورلین اور آرتھر ریمباڈ شامل ہیں جن کی تخلیقات پر شاپنہ اور اور سوئیڈن برگ کے فلسفیانہ تصورات کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ امیج ازم میں عزرا پاونڈاور ایمی لیول جبکہ ایکسپریشن ازم میں کافکا کے ناول اور او نیل کے ڈرامے کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ڈینش فلاسفر سورن کریکیارڈ اور پھر نطشے، ہائڈگر اور جاسپر سے منسوب فلسفہ وجودیت کو ژان پل سارتر، کاموز اور ہیمنگ وے نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں پیش کیا۔

لویجی پیر ینڈیلو کے ڈرامے، ناول اور افسانوں نے ریلیٹو ازم کے تصور کو اپنا حصہ بنایا اور جیمس جوائس کی پیچیدہ خودکلامی، نارسل پراسٹ کی یادداشت اور ورجینا وولف کی شعوری رو میں لکھی گئی ادبی تخلیقات نے اس مغربی ادبی دنیا کے عہد کو ماڈرن ازم کی فکر سے مالامال کر دیا جس نے پھر بیسویں صدی کے درمیانی عشرے کے بعد پوسٹ ماڈرن ازم کی صورت میں اپنا ارتقائی سفر جاری کیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments