ویتنام کی جنگ جس میں پہلے فرانس اور پھر امریکہ کو شکست ہوئی

امام ثقلین - بی بی سی اردو سروس لندن


پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ سنہ 1954 میں کیا تھا اور امریکہ کے فوجی اتحاد کے معاہدہ بغداد میں شمولیت سنہ 1955 میں اختیار کی تھی، لیکن اُس وقت بھی عالمی طاقتوں کے ایک تنازع میں غیر جانبدار فوجی مبصر کے طور بھی پاکستان کا نام لیا گیا تھا۔

چین نے ویت نام میں سنہ 1954 میں فرانسیسی فوجوں کی شکست کے بعد روس، فرانس، برطانیہ اور امریکہ سے جولائی میں جنیوا میں جاری مذاکرات کے دوران ان ممکنہ امن معاہدوں میں ‘مِلیٹرائیزڈ زونز’ کی غیر جانبدارانہ نگرانی کی ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی جس میں پاکستان کا نام بھی دیا گیا تھا۔

امن معاہدے جو بعد میں ‘جینیوا معاہدہ’ یا ‘جینیوا معاہدے’ کہلاتے ہیں، دراصل دس مختلف قسم کے معاہدے تھے۔ یہ اُس وقت کی چار عالمی طاقتوں، چین اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویت نام کے درمیان ویت نام میں فرانسیسی اور ویت مِنہ فوج کے درمیان جنگ بندی، ویت نام کی تقسیم، انتظامی سرحدوں کے تعین اور فوجوں کی سرگرمیوں کی حدود کے بارے میں تھے۔

جینیوا معاہدوں پر 21 جولائی سنہ 1954 کو 70 دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دستخط ہوئے تھے۔ یہ مذاکرات ویتنام میں سنہ 1954 میں ‘ ڈیئن بیئن فُو’ کی لڑائی میں فرانس کی فیصلہ کُن شکست کے بعد شروع ہوئے تھے۔

یہ لڑائی 13 مارچ سے 7 مئی تک جاری رہی اور فرانسیسی فوجوں کی شکست پر ختم ہوئی۔ امریکہ براہ راست اس لڑائی میں شامل نہیں تھا لیکن وہ فرانس کی خفیہ طور عملی مدد کر رہا تھا۔

جینیوا معاہدہ 1954 کی ٹائم لائن

•اگست 1945: جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کھائی، جس نے انڈو-چائنا میں جاپان کی بیدخلی کے بعد طاقت کا خلا پیدا کر دیا۔ فرانس نے ویت نام پر اپنے تسلط کو دوبارہ سے قائم کرنا شروع کیا۔

•ستمبر 1945: ہو چی منہ نے ایک آزاد شمالی ویتنام کا اعلان کیا اور امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں امریکہ کے سنہ 1776 کے اعلان آزادی کی طرح اپنے ملک کی آزادی کا اعلان کیا۔ ہوچی مِنہ کا خیال تھا کہ امریکی خوش ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔

•جولائی 1946: ہو چی منہ نے ایک فرانسیسی تجویز کو مسترد کر دیا جو ویتنام کو محدود خودمختار حکومت دینے کے بارے میں تھی۔ اس کے بعد ہوچی منہ کی حامی فوج ویت منہ نے فرانسیسیوں کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔

ویتنام کی جنگ؟

  • مارچ 1947: صدر ہیری ٹرومین نے کانگریس سے خطاب میں کہا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کسی ایسے ملک کی مدد کرنا ہے جس کے استحکام کو کمیونزم سے خطرہ ہے۔ اس پالیسی کو ‘ٹرومین نظریہ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • جون 1949: فرانسیسیوں نے ویتنام کے سابق شہنشاہ باؤ ڈائی کو ویت نام میں ریاست کے سربراہ کے طور پر تخت پر بٹھایا۔
  • اگست 1949: سوویت یونین نے قازقستان کے ایک دور دراز علاقے میں اپنے پہلے ایٹم بم کا دھماکہ کیا اور امریکہ کے ساتھ سرد جنگ کی کشیدگی کو ایک نیا موڑ دیا۔
  • اکتوبر 1949: خانہ جنگی کے بعد چینی کمیونسٹ رہنما ماؤ زےتُنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے انقلاب کی کامیابی کا اعلان کیا۔
  • جنوری 1950: عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویتنام کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیتے ہیں اور دونوں ہی ویتنام کے اندر کمیونسٹ مزاحمتی جنگجوؤں کو معاشی اور فوجی امداد کی فراہمی شروع کر دیتے ہیں۔
  • فروری 1950: سوویت یونین اور نئے کمیونسٹ چین کی مدد سے، ویتنام میں فرانسیسی چوکیوں کے خلاف ویت مِنہ کی کارروائیوں میں تیزی آتی ہے۔
  • جون 1950: امریکہ نے ویت مِنہ کو ایک کمیونسٹ خطرہ قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف فرانس کی فوجی امداد بڑھا دی۔
  • مارچ تا مئی 1954: ڈیئن بیئن فُو میں ویت منہ کی افواج کے ہاتھوں فرانسیسی فوج کو شکست ہوتی ہے۔ اس شکست نے انڈو – چائنا میں فرانسیسی حکمرانی کے خاتمے کا آغاز کیا۔
  • اپریل 1954: ایک تقریر میں امریکی صدر آئزن ہاور کہتے ہیں کہ فرانسیسی انڈو-چائنا کے کمیونسٹوں کے ہاتھوں خاتمے سے جنوب مشرقی ایشیا میں ‘ڈومینو’ اثر پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ نام نہاد ڈومینو نظریہ اگلی پوری دہائی میں ویت نام کے بارے میں امریکی سوچ کی رہنمائی کرتا ہے۔
  • جولائی 1954: جنیوا معاہدوں نے شمالی اور جنوبی ویت نام کی تقسیم کو ایک رسمی حیثیت دی۔ اس معاہدے میں یہ بھی شرط عائد کی گئی ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے تحت ویت نام کو متحد کرنے کے لئے دو سال کے اندر انتخابات ہونے ہیں۔ بعد میں یہ انتخابات کبھی نہیں ہوئے۔

فیصلہ کن جنگ

سنہ 1946 سے شروع ہونے والی آٹھ برسوں کی طویل جنگ کے بعد فرانسیسیوں کو ان کے شدید نقصان اور تاریک مستقبل کے پیش نظر یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ ویت منہ کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی عوام کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا تھا۔

لہذا فرانسیسی حکمرانوں نے مذاکرات کے ذریعے ویتنام میں جنگ کا خاتمہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ تاہم انہوں نے سوچا کہ وہ ویت منہ فوج کو میدانِ جنگ میں شکست دے کر مذاکرات شروع کریں تا کہ جب وہ میز پر بیٹھیں تو ایک فاتح کے طور پر بات کریں اور اپنی شرائط منوا سکیں۔

اس لیے جب فرانسیسی فوج کو یہ انٹیلیجینس رپورٹ ملی کہ ویت منہ اپنی فوجیں شمال مغربی علاقوں میں تعینات کر رہا ہے تو فرانسیسیوں نے اسے اپنے لیے ایک فوجی موقع سمجھا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ ویت منہ کے باقاعدہ فوجیوں کو شکست دینے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔

فرانسیسی جنرلوں نے جلد ہی اپنی فوج ڈیئن بیئن فُو روانہ کردی تا کہ وہ وہاں مضبوط دفاعی پوزیشن بنا لیں۔ ویت منہ کی فوج بھی اسی موقعے کی انتظار میں تھی۔ (ڈیئن بیئن فُو شمالی ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی کے مغرب کی جانب لاؤس کی سرحد کے قریب ایک اہم شہر ہے)۔

ویت منہ کی فوج نے ڈیئن بیئن فُو میں فرانسیسی فوج کی اس تعیناتی کو اُسے شکست دینے کا ایک نادر موقع سمجھا۔ اسی وجہ سے ویت منہ کے جنرل وو نگوین گیپ مرحوم کے بقول، دونوں فریقوں کی فوجوں کے درمیان ڈیئن بیئن فُو’ایک تاریخی ملاقات کا میدان’ بن گیا۔

ویتنام کی رسمی تقسیم

فرانس کی ویت نام میں شکست کو جینیوا معاہدے میں رسمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور انہی معاہدوں میں ویتنام کو بھی دو مختلف انتظامی ممالک کے طور پر قبول کیا گیا۔

ایک خطہ شمالی ویتنام جو کے ‘ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویتنام’ کے نام سے سنہ 1945 سے چلا آ رہا تھا اور جو ہوچی مِنہ سے وابستگی کی وجہ سے ‘ویت مِنہ’ کے کنٹرول میں تھا، اور دوسرا ‘جنوبی ویت نام’ جہاں بادشاہت بحال کر کے مغرب نواز اور کمیونسٹ مخالف رہنما، ناگو ڈِائن ڈائم کی حکومت قائم کی گئی۔

یہ تقسیم پہلے سے چلی آ رہی تھی، تاہم جینیوا معاہدے میں اسے رسمی شکل دی گئی تا کہ فرانس کو شکست کی براہ راست شرمندگی سے بچایا جائے۔ فرانس نے جنوبی ویت نام سے آہستہ آہستہ اپنی فوجوں کے انخلا کا آغاز کیا۔ جنوبی ویتنام جلد ہی امریکی فوجی مداخلت کے لیے اہم خطہ بنا۔

جینیوا معاہدے پر دستخط کے بعد ویتنام پر فرانس کے تسلط کے خاتمے کا آغاز ہوا لیکن اسی کے ساتھ اس خطے میں امریکہ کی مداخلت کی تاریخ بھی شروع ہوئی جو بالآخر 2 اگست اور پھر 4 اگست سنہ 1964 میں خلیج ٹونکن کے واقعے کے بعد براہِ راست امریکی فوجوں کی عملی مداخلت اور بالآخر ساڑھ پانچ لاکھ سے زیادہ امریکی فوجوں کی جنوبی ویتنام میں تعیناتی کی صورت میں ہوئی۔

امریکی فوجوں کی براہ راست مداخلت کے بعد ہوچی مِنہ کے حامی ویت مِنہ کے ساتھ طویل جنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ویتنام کا یہ بحران دو دہائیوں کے بعد سنہ 1975 میں ختم ہوا۔

ویتنام کی محکومیت کا دور

ویتنام سنہ 1887 میں فرانس کی ایک کالونی بنا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب چین کے بھی کئی ساحلی علاقوں پر برطانیہ کی کمپنیوں کا کنٹرول تھا۔ مشرقِ بعید کے کئی خطے اُس زمانے میں مغربی طاقتوں کے زیرِ تسلط تھے۔

جس وقت ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے براہ راست تاجِ برطانیہ کی حکمرانی میں شامل ہوا تھا، اُس وقت ویتنام انڈو-چائینا کے ایک حصہ کے طور پر فرانسیسی کالونی بن رہا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے فرانس کی فوجوں کو شکست دے کر ویتنام پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم جب دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کو شکست ہوئی تو ویت نام کو دوبارہ سے فرانس کے قبضے میں دے دیا گیا جبکہ وہاں کے عوام فرانسیسی آبادیاتی نظام سے آزادی مانگ رہے تھے۔

ان حالات میں ویتنام کے قوم پرست رہنما ہوچی مِنہ نے ویتنام کی آزادی کا اعلان امریکہ کے سنہ 1776 کے اعلانِ آزادی کی طرح یہ سوچ کر کیا کہ شاید اس سے امریکہ اُن کی حمایت کرے۔ مگر امریکہ نے پھر بھی ہوچی مِنہ کی زیرِ قیادت ویتنام کی آزادی تسلیم نہیں کی۔

اس کے نتیجے میں سنہ پچاس کی دہائی میں، اور خاص کر چین کے عوامی انقلاب کے بعد فرانسیسی فوجوں کو ‘ویت مِنہ’ فوج کی پہلے سے بھی زیادہ طاقت کا سامنا کرنا پڑا جو کے غیر ملکی تسلط کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔

امریکہ کی پالیسی

دوسری جانب امریکہ کے پالیسی ساز اداروں نے جنوب مشرق ایشیا میں میں ہوچی مِنہ کی ‘ویت مِنہ’ فوج کی بڑھتی ہوئی مزاحمت کو کمیونزم کی بڑھتی ہوئی طاقت کے طور پر دیکھا، لہٰذا امریکہ نے اس جنگ میں فرانس کی مدد کرنا شروع کر دی۔

اب فرانسیسی پارلیمان کی کارروائیوں سمیت کئی شواہد منظرِ عام پر آ چکے ہیں کہ امریکہ فرانس کو انڈو-چائینا میں استعمال کرنا چاہتا تھا اور اسی بات نے فرانس میں ویتنام کی جنگ کے خلاف عوامی رائے عامہ مضبوط کی۔

سرد جنگ

اگرچہ دوسری عالمی جنگ میں سویت یونین اور مغربی ممالک کے اتحاد نے مل کر نازیوں کو شکست دی تھی، لیکن جلد ہی کمیونسٹ بلاک اور مغربی ممالک ایک دوسرے کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کے لیے صف آرا ہو گئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد منتخب ہونے والے امریکی صدر ٹرومین کی انتظامیہ کا تو بنیادی نعرہ ہی کمیونزم کے سیلاب کو روکنا قرار پایا، جس کا اعلان سرد جنگ کے ابتدائی دنوں میں کر دیا گیا تھا اور امریکہ کی اسی پالیسی کو بعد میں ‘نظریہِ ٹرومین’ (ٹرومین ڈاکٹرین) کا نام دیا گیا۔

سرد جنگ کے دوران بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ویتنام میں جنگی حالات چینی رہنماؤں کو خوف زدہ کر رہے تھے، کچھ تو اس لیے کہ انہیں بیک وقت دیگر خطوں میں بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

آبنائے تائیوان میں مئی سنہ 1954 میں عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان کی حکومت کے درمیان سنہ 1949 کے بعد سے ہونے والے انتہائی سنگین تنازعات کے بعد امریکہ نے اس علاقے میں اب طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیا تھا جو براہِ راست چین کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ تھا۔

اسی دوران چینی رہنماؤں کو یہ احساس بھی ہوا کہ امریکہ تائیوان میں جنرل چیانگ کائی شیک کے ساتھ اتحاد پر غور کر رہا ہے اور اس پر تبادلہ خیال کے لیے تائیوان میں فوجی رہنماؤں کا ایک وفد بھی بھیجا ہے۔

بعد میں منظرِ عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی سفارت کاروں کے مطابق، امریکی عہدے دار جنوب مشرقی ایشیا کا بھی دورہ کر رہے تھے اور جنوب مشرقی ایشیائی معاہدہ تنظیم (سیٹو) کے قیام میں تعاون کے لیے برطانیہ اور فرانس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔

عوامی جمہوریہ چین کے اہلکاروں کو معلوم تھا کہ امریکہ نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی سرپرستی کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے اور اِس تنظیم میں مزید کچھ ایشیائی ریاستوں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔

(امریکہ نے بعد میں پاکستان کو اسی تنظیم میں شامل کروا لیا تھا۔ اور اُس کی وجہ مشرقی پاکستان تھا جو جغرافیائی طور پر مشرقِ بعید کے قریب تھا۔ اسی قسم کا چین مخالف اتحاد موجودہ دور میں ‘کواڈ’ کے نام سے وجود میں آ چکا ہے اور فعال بھی ہو چکا ہے)۔

بہرحال پچاس کی دہائی کے وسط میں چین نے دیکھا کہ صدر آئزن ہاور اس حد تک چین کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے کہ اگر برطانیہ امریکہ کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے تب بھی امریکہ تنہا ہی چین کے خلاف کارروائی کرے گا۔

بیجنگ میں خارجہ پالیسی کے اعلیٰ اہلکاروں نے امریکہ کے خلاف چینی مفادات کی حفاظت کے لئے جنیوا میں مجوزہ مذاکرات کو امریکہ کو اپنے اتحادیوں سے الگ کرکے اس خطے میں جنگ کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا بہترین موقع سمجھا۔

ان کے مشاہدات نے چینیوں کو یقین دلایا تھا کہ یہ حکمت عملی اب بھی قابل عمل ہے، کیونکہ مغربی ریاستوں میں ابھی بھی سنگین اختلافات موجود تھے۔ چینی انٹلیجنس کے مطابق، فرانسیسیوں نے پھر بھی ویت نامی فوجیوں کی کمانڈ امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے علاوہ باوجود اس کے کہ برطانوی اہلکار امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ فوجی کمانڈروں کی میٹنگ منعقد کروانے کی تجویز پر راضی ہوگئے تھے، مگر انہوں نے پیشگی اعلان کر دیا کہ وہ اس کانفرنس میں جنوب مشرقی ایشیا میں دفاعی معاہدہ کے لیے ہونے والے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔

ویتنام کی کوریا کے ساتھ مماثلتیں

جنیوا میں موجود مندوبین نے ویتنام اور جزیرہ نما کوریا میں سنہ پچاس کی جنگ کے بعد کے حالات اور ویتنام کے سنہ 1954 کے حالات کے درمیان مماثلت کا ذکر بھی کیا تھا کہ کہیں جنوبی چین میں سیاسی جمود نہ پیدا ہو جائے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کے آغاز میں کوریا ایک ایسا ملک بن کر ابھرا جو دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کی وجہ سے تقسیم ہو گیا تھا۔ اور اُس وقت سے ایک تقسیم شدہ خطہ کی حیثیت میں چلا آرہا تھا۔

سنہ 1945 تک کوریا پر جاپانیوں کا قبضہ تھا۔ ان کے انخلا کے بعد جزیرہ نما کوریا کرّہِ ارض کی 38 ویں متوازی پر تقسیم ہوا تھا۔ یہ عارضی تقسیم تھی، تاہم جلد ہی اس خطے میں دو مختلف ریاستی نظاموں نے کام کرنا شروع کردیا۔

ایک کمیونسٹوں کے زیرِ انتظام تھا جو شمالی کوریا کہلایا، جسے سوویت یونین اور چین کی حمایت حاصل رہی۔ اور دوسرا جنوبی کوریا کہلایا جس کی امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی آج بھی حمایت کرتے ہیں۔

ان دونوں عارضی ریاستوں کے حکمران اپنے آپ کو پورے جزیرہ نما کے جائز حکمران سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں۔ سنہ 1950 میں شمالی کوریا کی فوج نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا، جس سے بین الاقوامی سطح پر رد عمل کا آغاز ہوا۔

امریکہ کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے ایک فوجی اتحاد نے جنوبی کوریا کو مغلوب ہونے سے روکنے کے لئے مداخلت کی۔ جنگ بندی کے نتیجے میں جولائی سنہ 1953 میں کوریائی جنگ کا اختتام ہوا جس کے ساتھ جزیرہ نما تقسیم ہوگیا۔

سنہ 1954 میں جنیوا مذاکرات میں حصہ لینے والوں کا خدشہ یہی تھا کہ ویت نام کی تقسیم بھی کہیں مستقل شکل اختیار نہ کر لے۔ امریکی آئووا سٹیٹ یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر، تاؤ وانگ ہُو کے تحقیقی مقالے جو کہ ‘جرنل آف کولڈ وار’ کے اپریل سنہ 2017 کے شمارے میں شائع ہوا، اس واقعہ کی تفصیل بتائی گئی ہے۔

اس لیے مئی سنہ 1954 میں فوجی کامیابی کے باوجود شمالی ویتنام نے چین کے اصرار پر امریکہ اور مغرب کو یہ رعایت دی کہ فرانسیسی فوج جنوبی ویتنام سے بتدریج انخلا کرے۔ اس کے علاوہ چین جزیرہ نما کوریا کی تقسیم اور وہاں امریکی فوجی مداخلت کی مثال کو اپنے جنوب میں دوبارہ ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔

پاکستان کا کردار

پروفیسر تاؤ لکھتے ہیں کہ ‘جیسے ہی جنیوا میں انڈو-چائنا مذاکرات کا آغاز ہوا، چین کے وزیرِ اعظم چواین لائی نے ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویت نام کے وفد پر زور ڈالا کہ وہ فرانسیسیوں کو مذاکرات میں اپنی سنجیدگی اور خلوص دکھانے کے لیے اُسے اپنے زخمی فوجیوں کو ہارے ہوئے شہر سے واپس لانے کی اجازت دینے پر راضی ہوجائے۔’

لیکن دونوں فریقوں کی پوزیشنوں کے مابین پائے جانے والی خلیج کو ظاہر ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

‘اول تو ویتنامی وفد کانفرنس کے عام مقصد سے متفق نہیں تھا۔ فرانس جنگ بندی میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن ویتنام کے مستقبل پر تبادلہ خیال کرنے سے انکار کردیا۔ لہذا فرانسیسی وفد نے پہلے جنگ بندی کے بارے میں بات چیت شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔

تاہم ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویتنام کے حکام بیک وقت جنگ بندی اور ایک ایسے سیاسی حل پر تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ مذاکرات متحدہ ویت نام کے قیام کا بھی باعث بنیں۔’

پروفیسر تاؤ کے مطابق ‘انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک بات چیت کے ذریعے کوئی قابل اطمینان بخش نتیجہ حاصل نہیں ہوتا فوجی کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا، ویتنامیوں نے یہ موقف اپنے کیمیونسٹ ممالک اتحادیوں کے ساتھ مل کر اختیار کیا تھا۔’

پروفیسر تاؤ کے مطابق مذاکرات میں شامل فرانسیسی اور کمیونسٹ بلاک کے درمیان دوسرا فرق جنگ بندی کی نگرانی کے بارے میں تھا۔ اگرچہ دونوں فریقوں نے نگرانی کی ضرورت کے بارے میں اتفاق کیا تھا، لیکن انہوں نے نگران کمیشن کی تشکیل پر اتفاق رائے نہیں کیا تھا۔

فرانسیسیوں نے جنگ بندی کے ‘بین الاقوامی کنٹرول’ کی ایک مبہم شکل کی تجویز پیش کی تھی، لیکن کمیونسٹوں کو شبہ تھا کہ فرانسیسی تجویز زیادہ تر امریکی تجویز کردہ فوجی گروپ کی طرح ہی ہو گی۔

پروفیسر تاؤ لکھتے ہیں ‘لہٰذا کمیونسٹ اتحادیوں نے فرانسیسی تجویز کے جواب میں بھارت سمیت غیر جانبدار ریاستوں یعنی پاکستان، پولینڈ، چیکوسلواکیہ، اور انڈونیشیا یا برما پر مشتمل ایک کمیشن کی تجویز پیش کی۔

مغربی ممالک نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ ‘کمیونسٹ ریاستیں غیرجانبدار نہیں ہیں’ اور پولینڈ اور چیکوسلوواکیا کی کمیشن میں موجودگی اس کو بے معنی بنا دے گی، کیونکہ ان کے ذہن میں کوریا کے فوجی دستے کی نگرانی کرنے والے کمیشن سے حاصل ہونے والا سبق موجود تھا۔

یہ بھی پڑھیے

60 برس قبل ہونے والے ایٹمی تجربات جن کی تلخی دو ممالک کے تعلقات میں آج بھی ہے

اقبال احمد: پاکستانی دانشور جن پر ہنری کسنجر کے اغوا کی سازش کا الزام لگا

امریکہ ویتنام کے زہر آلود ہوائی اڈے کو صاف کرے گا

معاہدے کے بنیادی خد و خال

ویتنام میں امن کے بارے میں فرانس، برطانیہ، امریکہ، سویت یونین، چین اور انڈو-چائینا ممالک (ویت نام سمیت لاؤس اور کمبوڈیا) کے مابین سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی بات چیت کا اصل موضوع ویت نام میں ایک پائیدار امن معاہدہ طے کرنا تھا، جس میں چین بالآخر کامیاب ہوا۔

اس معاہدے میں فرانس کی نمائندگی وہاں کے نومنتخب وزیر اعظم پیری مینڈس نے کی تھی۔ انہوں نے فرانسیسی پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے ایک ایسی جنگ کا خاتمہ کرنے کے لیے ‘ایک باعزت طریقے’ سے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے جس میں کم سے کم تین لاکھ جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا۔

ویتنام کی اس جنگ میں فرانس کی مدد کے لیے امریکہ نے کم از کم 385 ملین ڈالر دیے تھے (تاہم نیو یارکر کے 19 جنوری سنہ 2018 کے شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں لوئیس میننڈ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اس جنگ میں فرانس کو ڈھائی بلین ڈالرز کی امداد دی تھی۔

ٹرومین کے پیش رو، امریکی صدر آئزن ہاور نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں ایسے نکات شامل ہیں جو وہ پسند نہیں کرتے ہیں – جیسے کہ شمال اور جنوب کے درمیان ویت نام کی تقسیم –

امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں، ری پبلیکنز اور ڈیموکریٹس، کے سینیٹ کے رہنماؤں نے اس معاہدے کے بارے اپنے خدشات کا اظہار کیا، جسے وہاں کمیونزم کی فتح قرار دیا گیا۔ اُس وقت کی امریکی سینیٹ میں ری پبلکن کے رہنما سینیٹر ولیم نولینڈ نے کہا کہ ‘ہمیں افسوس ہو سکتا ہے کہ فرانسیسیوں کو ایسا معاہدہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔’

چین کا ہدف

یہ کانفرنس پہلا بین الاقوامی اجلاس تھا جس میں چین کی کمیونسٹ حکومت نے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور سویت یونین سمیت بڑی عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو رکھنے والے مستقل ارکان کے ساتھ شرکت کی تھی۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ ڈلس نے مذاکرات کے دو ران چینیوں سے کبھی براہ راست بات نہیں کی اور نہ مصافحہ کیا۔

سٹیٹ یونیورسٹی آف آئیووا کے تاریخ کے پروفیسر پروفریسر تاؤ کی تحقیق کے مطابق اس معاہدے کی سب سے زیادہ خواہش چین کو تھی کیونکہ چین ہر حال میں چاہتا تھا کہ امریکہ اس خطے میں مداخلت نے کرے۔

چین کا خیال تھا کہ اگر امریکہ اس خِطے میں براہ راست فوجی مداخلت کرتا ہے تو لازمی طور پر اس کا امریکی فوج سے ٹکراؤ ہو گا اور ایک نئی عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب چین ابھی ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا۔

جنیوا معاہدے کی اہم دفعات یہ تھیں:

•ویتنام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور شمال اور جنوب کے درمیان ‘سترویں متوازی’ تقسیم کے نام کی سرحد بنائی جائے گی (‘سترہویں متوازی’ نامی یہ لائن دراصل حقیقی 17 ویں متوازی سے مطابقت نہیں رکھتی تھی لیکن اس کے جنوب میں تقریباً دریائے بین ہی کے ساتھ بو ہو سو گاؤں تک اور وہاں سے مغرب سے لاؤس-ویتنام کی سرحد تک واقع ہوتی تھی۔ اس حد بندی لائن کے دونوں کناروں پر 3 میل کا غیر فوجی خطہ تشکیل دیا گیا تھا)

  • ویت منہ کے رہنما ہو چی منہ کی سربراہی میں ایک کمیونسٹ حکومت شمالی ویتنام میں تسلیم کی جائے گی اور جنوبی ویت نام میں شہنشاہ بائو ڈائی اور وزیر اعظم نگو ڈائن دیام کے ماتحت ایک قوم پرست حکومت قائم کی جائے گی
  • شمالی ویتنام کا دارالحکومت ہنوئی تسلیم کیا گیا جبکہ جنوبی ویتنام کا دارالحکومت سائگان ہوں گا
  • سنہ 1956 میں ویتنام کی ایک متحدہ حکومت کی تشکیل کے مقصد کے ساتھ انتخابات ہوں گے
  • دونوں طرف سے جنگی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا
  • فرانسیسی افواج شمالی ویتنام سے دستبردار ہو جائیں گی جبکہ ویت مِنہ جنوبی ویتنام سے انخلا کر دیں گے
  • کمیونسٹ تنظیمیں اور ممالک لاؤس اور کمبوڈیا کو آزاد ممالک کی حیثیت سے تسلیم کریں گے اور دونوں سے اپنی اپنی افواج کے انخلا پر متفق ہوں گے

سائگان میں، سپریم فرانسیسی کمانڈر جنرل پال-ہنری-رومالڈ ایلی نے ویتنامی فوج سے وعدہ کیا کہ ‘جنگ کی طرح امن کے دور میں بھی ہم آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے’۔ فرانسیسی جنرل نے ویتنامی عوام کو ایک پیغام میں کہا تھا کہ جن مقامی افراد کو کمیونسٹ ویتنام کے علاقوں سے ہجرت کرنا پڑے گی فرانس ان کی ٹرانسپورٹ کے تمام اخراجات ادا کرے گا۔

دیرپا امن کیوں قائم نہیں ہو سکا؟

جب امریکی فوجیں سنہ 60 کی دہائی میں جنوب مشرقی ایشیا پہنچیں تو ویتنام کی ہزار سالہ قدیم قوم دو الگ الگ ممالک میں منقسم ہو چکی تھی، کمیونسٹ شمالی ویتنام، اور غیر کمیونسٹ جنوبی ویتنام۔

جنیوا معاہدوں کی بدولت لاؤس، کمبوڈیا اور ویتنام میں جنگ بندی کا قیام عمل میں آیا اور ویتنام میں دو ‘تنظیم نو’ زون قائم کیے تھے، جن کے ڈی ملیٹرائزڈ زون (ڈی ایم زیڈ) بنائے گئے تھے۔ شمالی و جنوبی ویتنام کی تقسیم صرف 1956 تک جاری رہنی تھی، اس کے بعد پورے ملک میں ایک متحدہ حکومت بنانے کے لیے ملک گیر قومی انتخابات ہونا تھے۔

اگرچہ امریکہ نے جنیوا معاہدوں سے پہلے کے مذاکرات کے دور میں میں تو حصہ لیا تھا، لیکن امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈلس اور امریکہ نے ان پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے کمیونسٹ اقوام کے ساتھ کثیرالجہتی معاہدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔

امریکہ نے معاہدوں کی دفعات کو قبول کرلیا، لیکن صدر آئزن ہاور اور ڈلس دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکی باضابطہ طور پر چین کے ساتھ معاہدہ نہیں کرے گا۔ مذاکرات کے دوران ایک مرتبہ بھی امریکی وفد کے کسی رکن نے چینی وفد کے کسی بھی رکن سے مصافحہ نہیں کیا۔

سنہ 1955 میں، جنوبی ویتنام میں فرانسیسی کنٹرول کے خلاف مسلسل احتجاج کے دوران، نو منتخب جنوبی ویتنام کے صدر نگودائیم نے اعلان کیا کہ جنوبی ویتنام اب ایک مستقل اور مکمل آزاد ریاست ہے، اس کا نیا نام ‘جمہوریہ ویتنام’ ہوگا۔

انہوں نے جنیوا معاہدوں میں ہونے والےسنہ 1956 کے قومی انتخابات منسوخ کرتے ہوئے، ہنوئی میں شمالی ویتنام کی حکومت کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی اور متحدہ ویتنام کی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا۔

اگلے برسوں کے دوران، جنوبی ویتنام میں ایک کمیونسٹ شورش پیدا ہوئی۔ جنوبی ویتنام کی کمیونسٹ مخالف حکومت کے صدر اور ان کے ساتھی کافی غیر مقبول تھے اس لیے وہاں ان کے خلاف تحریک شروع ہوئی جسے سائیگان اور امریکہ دونوں نے کمیونسٹ شورش قرار دیا۔ اس شورش کو بالآخر ہنوئی کے رہنماؤں نے مدد دی۔

چونکہ سائیگان میں حکومت (دیگر امور کے علاوہ) نہ صرف زمینی اصلاحات متعارف کرنے میں ناکام رہی بلکہ داخلی بدعنوانی (کرپشن) پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ جس کی وجہ سے حکومت غیر مقبول ہوئی اور اگلی دہائی کے دوران ‘کمیونسٹ’ شورش نے مزید زور پکڑا۔

اب مستقل طور پر منقسم ویتنام کے ساتھ اس مرحلے کو ایک ایسی جغرافیائی سیاسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب وہاں امریکی فوج نے جنوبی ویتنام کو غیر کمیونسٹ اور آزاد رکھنے کے لئے لڑنے کے لیے اس شورش زدہ خطے میں فوجی مداخلت کی تھی۔

عالمی طاقتوں کا منفی کردار

ہوچی مِنہ نیشنل اکیڈمی آف پولیٹکس کے جریدے پولیٹیکل تھیوری جرنل کے جنوری سنہ 2016 کے شمارے میں پروفیسر وُو ہوانگ کانگ لکھتے ہیں کہ ویتنام کا اصل تنازع ویتنام اور فرانس کے درمیان تھا، پھر چار بڑی طاقتوں کو ان مذاکرات میں کیوں شامل کیا گیا؟ یہ مذاکرات سنہ 1946 کے عبوری معاہدے کی طرح ویتنام ا ور فرانس کے درمیان کیوں نہیں ہوئے؟

یہ سوال اٹھا کر مقالے میں اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر وُو لکھتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق کیا جانا چاہئے کہ 1953-1954 کے عرصے میں انڈو-چائینا کی جنگ اب ویتنام اور فرانس کے مابین نہیں رہی تھی۔ جنگ کے لیے خاطر خواہ فنڈز اور اسلحے کے لیے، فرانس کا انحصار امریکہ پر تیزی سے بڑھ گیا تھا جو بہت کم نقصان کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کا فاتح تھا۔

‘اور اب (امریکہ) ایک مضبوط سامراجی ملک تھا اور سرمایہ دارانہ دنیا کی قیادت کرتا تھا۔ امریکہ کا اصل منصوبہ ہی یہی تھا کہ وہ آہستہ آہستہ فرانس کو امداد فراہم کر کے ویتنام میں اس کی جگہ لے لے۔ لہذا انڈو-چائینا جنگ کے بعد کے مرحلے میں امریکہ نے فرانسیسیوں پر اپنا دباؤ بڑھایا اور اسے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا۔’

ان کے مطابق، ڈیموکریٹک ری پبلک آف ویتنام کی جانب سے انہیں سوویت یونین اور چین کی طرف سے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل تھی اور مؤخر الذکر نے اپنے فوجی مشیر بھیجے۔ ڈیئن بیئن فُو میں ویتنام کی فتح کے پیچھے اس طرح کی حمایت ایک اہم عنصر تھی۔

اگرچہ سنہ 1954 میں ویتنام اور فرانس دونوں ہی جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن صورتحال سنہ 1945 سے سنہ 1946 کے عرصے کی اس جنگ سے مختلف تھی کیونکہ اب جنگ میں صرف دو فریق ہی شامل نہیں تھے۔

‘سرد جنگ کی دونوں عالمی طاقتیں، امریکہ اور سویت یونین، اپنا اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس صورتحال کو استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جنیوا کانفرنس طلب کی اور مذاکرات کرنے والی جماعتوں کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا۔‘

‘یہ دونوں عالمی طاقتوں کے مفادات ہی تھے کہ جنیوا کانفرنس 8 مئی سے 21 جولائی 1954 تک یعنی 75 دنوں تک جاری رہی۔ شریک ممالک نے وہی موقف اپنائے جو ان کے اپنے مفادات میں تھے۔ امریکہ نے فرانس پر دباؤ ڈالا، اور سویت یونین نے ویت نام کو مغرب سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔’

معاہدہ مبہم تھا

امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں بری فوج اور بحریہ کی تاریخ کے پروفیسر جان لوئس گاڈیس کا خیال ہے کہ سنہ 1954 کے جینیوا معاہدوں کے لیے مذاکرت کا سلسلہ اتنی تیزی طے پایا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کےزاویے سے اُس میں کئی باتیں غیر واضح اور مُبہم رہ گئیں۔

مثلاً یہ کہ اگر کوئی ان معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہو گی اور کہاں یہ نکتہ اٹھایا جائے گا۔ جنوبی ویتنام نے انتخابات ملتوی کر دیے جبکہ شمالی ویتنام پر الزام لگا کہ اُ س نے اپنی فوج کا انخلا نہیں کیا، لیکن ان خلاف ورزیوں کے مداوے کا کو فورم نہیں تھا۔

ان مذاکرات کا سبق؟

ویتنام کے عالمی طاقتوں کی موجودگی میں فرانس سے مذاکرات سے کچھ سبق ملتے ہیں جنھیں ہر دور میں ایک حقیقت پسند کمزور ملک کے لیے مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں بنیادی سبق تو یہ ہے کہ رومانویت پر حقیقت پسندی کو ترجیح دی جانا چاہیے۔

پروفیسر وُو کہتے ہیں کہ سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ ‘سامراجیوں بالخصوص امریکہ کے خلاف ویتنام جیسے کمزور ملک کو اپنی لڑائی کے لیے سوویت یونین اور چین جیسے سوشلسٹ ممالک کی حمایت سے فائدہ کس طرح اُٹھانا ہے۔’

ویتنام کی خواہش تھی کہ دوسرے سوشلسٹ ممالک کے ساتھ مل کر عالمی امن کے لیے جدوجہد کرے، لیکن سب سے پہلے وہ اپنے بنیادی قومی مفادات کا دفاع، آزادی، اتحاد، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔

پروفیسر وُو لکھتے ہیں کہ ویتنام کو امریکہ کی سربراہی میں سامراجی ممالک کے درمیان ملی بھگت واضح طور پر سمجھ میں آ گئی تھی کہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کو دبانا چاہتے تھے اور بالآخر سوشلسٹ ونگ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

اس معاہدے کی ایک بات حکمت عملی کے طریقے کو طے کرنا ہے۔ کچھ سمجھوتہ کرنے کے لیے مطالبات میں لچک ضروری ہے۔ اگر امریکہ اور جنوبی ویتنام کی کٹھ پتلی حکومت جنیوا معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کرتے تو معاہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد ویتنام متحد ہو جاتا۔

آج کل، چونکہ سپر پاور سے تعلقات میں مسابقت اور تعاون دونوں عوامل ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کے دوران اپنے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے خود انحصاری کی پوزیشن پر قائم رہتے ہوئے امن، دوستی، تعاون اور باہمی ترقی کے لئے بھی جنگ کرنے سے گریز نہ کرے۔

جو بنیادی حکمت عملی پچھلی صدیوں میں درست تھی وہی آج بھی درست ہے: مذاکرات اور جنگ دونوں ہی کا مناسب وقت پر استعمال اُس وقت سود مند ہوتا ہے جب مذاکرات میں لچک مہمات سے بہتر سمجھی جاتی ہے۔

فرانس کا انتباہ جو امریکہ نے نظر انداز کیا

جب امریکہ کی ویتنام میں براہ راست فوجی مداخلت بڑھنا شروع ہوئی تو فرانس کے صدر چارلس ڈی گال نے انڈو-چائنا میں اپنی ہی قوم کے طویل تجربے کی روشنی میں کہا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں مداخلت ‘ختم نہ ہونے والی گنجھلک’ ہو گی۔

ڈی گال نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ فوجی مداخلت کرنے کے بعد خود کو ایک ‘گہری فوجی اور سیاسی دلدل’ میں پھنسا ہوا پائے گا۔ تاہم امریکہ نے فرانس کے انتباہ کو نظر انداز کیا بلکہ آئندہ بھی خونریز فوجی مداخلتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

تاہم تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ خود فرانس جس کے اٹھارویں صدی کے انقلاب کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ انسان ’آزاد پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مساوی حقوق ہوتے ہیں‘ اُسی فرانس نے سارے ملاگسی، تیونسی، مراکشی، ویتنامی، کمبوڈین، اور الجیریائی لوگوں کو آزاد سمجھا نہ ان کے حقوق تسلیم کیے۔

فرانس نے سنہ 1954 میں ویتنامیوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اپنی فوجی طاقت کے ذریعے الجزائر کے عوام کی آزادی کو کچلنے کے لیے بدترین مظالم ڈھائے لیکن وہاں سے بالآخر پسپائی اختیار کی۔ شاید عظیم طاقتیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp