پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز ٹی ٹوئنٹی سیریز پر سمیع چوہدری کا کالم: ’مسئلہ پولارڈ کے بلے میں نہیں تھا'

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


پولارڈ نے جب پہلی مرتبہ اپنا بیٹ تبدیل کیا تو ویسٹ انڈین ڈریسنگ روم اور شائقین میں موجود کئی چہروں پہ مسکراہٹ کی ایک لہر سی دوڑی۔ گمان تھا کہ بلا بدلتے ہی چھکوں کی بھرمار شروع ہو جائے گی اور میچ سے کہیں پیچھے لڑھکتی ویسٹ انڈین اننگز میں جان آ جائے گی۔

لیکن بلا بدلنے کے بعد بھی ایسا کچھ نہ ہو سکا جو اس ‘مسکراہٹ’ کو متوقع تھا۔

مگر چند ہی لمحوں بعد پولارڈ نے دوبارہ بلا بدلنے کا سوچا اور جب وہ ڈریسنگ روم کو اس تبدیلی کے لیے اشارہ کر رہے تھے تو ان کے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا کہ آج مسئلہ شاید بلے میں نہیں، خود ان میں ہے۔ اور ان سے بھی کہیں زیادہ اس وکٹ میں ہے۔

بابر اعظم، محمد رضوان اور نکولس پورن کے سوا کوئی اس وکٹ کی چال نہ سمجھ پایا۔ یہاں کچھ ایسی سُستی تھی کہ کسی کی بھی ٹھیک سے چلنے نہ پائی۔ جس نے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی، وکٹ نے اس کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔

سو، اننگز کے اختتامی مراحل کہ جہاں پاکستان نے پاور ہٹنگ کی پلاننگ کر رکھی تھی اور انہی کے لیے پہلے پندرہ اوور کی ریاضت بھی کاٹی تھی، وہ ڈیتھ اوورز مایوسی کے سوا کچھ نہ لائے۔

چوبیس گیندوں کے بیچ صرف 23 رنز کے عوض چھ وکٹیں گنوانے کے سبب کوئی تسلی بخش چیز پاکستان کے سکور بورڈ کا حصہ نہ بن سکی۔

یہ بھی پڑھیئے

پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کی وجہ سے ترک کر دیا گیا

بے خوف کرکٹ بمقابلہ ’واقعی بے خوف کرکٹ‘

ویسے تو کرکٹ کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کوئی بھی مجموعہ یقینی فتح کا ضامن نہیں ہوتا مگر پھر بھی وکٹ کے حساب سے یہ ایک مسابقتی مجموعہ ضرور تھا۔

لیکن ویسٹ انڈین پاور ہٹنگ کی عظمت اب ٹی ٹونٹی کرکٹ کی مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔

ویسٹ انڈین بیٹنگ کی یہ صلاحیت اب کسی بحث کی محتاج نہیں رہی۔ ایسی جارحانہ بیٹنگ لائن کے سامنے کوئی بھی مجموعہ اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔

لیکن جس کشادہ ذہنی سے بابر اعظم نے اپنے بولرز کا استعمال کیا، وہ بہترین کپتانی کا نمونہ ثابت ہوا۔

سب سے خوبصورت کام انھوں نے یہ کر چھوڑا کہ اٹیک کی ابتدا ہی محمد حفیظ سے کر ڈالی۔ اتنی سست وکٹ پہ جب پہلے ہی اوور میں گیند سے رفتار نچوڑ لی جائے تو اوپنرز کے خواب وہیں مرجھانے لگتے ہیں۔ پہلے اوور میں محمد حفیظ نے میچ کی جو ٹون سیٹ کر چھوڑی، وہ ویسٹ انڈین بیٹنگ کے اعصاب پہ آخری گیند تک طاری رہی۔

کیونکہ پاکستانی بولنگ نے بھی دو تین اوورز کے سوا اسی ٹون کو برقرار رکھا۔ حسن علی نے تو ویسٹ انڈین بیٹنگ کی رہی سہی امیدیں بھی ماؤف کر دیں۔ مگر اس دوران پورن یہ سمجھ گئے کہ وکٹ پہ رکنا ضروری ہے۔

پورن کی اننگز اس میچ کی دلچسپ ترین اور نہایت خوبصورت چیز تھی۔

ڈیتھ اوورز میں جس دھیان اور مہارت کا انھوں نے اظہار کیا، وہ دباؤ کے جواب میں استحکام اور اعتماد کی ایک عمدہ مثال ہے۔ محفوظ سے آغاز کے بعد جب وہ وکٹ کی رفتار سے ہم آہنگ ہو گئے تو اپنی مرضی سے ہر گیند کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے۔

لیکن کچھ گیندیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی قسمت مشاق سے مشاق بلے باز بھی طے نہیں کر سکتا کیونکہ کچھ لمحات میں بولر کا ذہن بلے باز سے خاصا آگے چل رہا ہوتا ہے۔

ایسی سست اور دھیمے باؤنس کی وکٹوں پہ اگر کوئی ماہر سیمر لگ بھگ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے یارکرز پھینکنے میں کامیاب ہو جائے تو بھلا پورن جیسا ‘سیٹ’ بلے باز بھی مار کھا سکتا ہے۔ آفریدی کے یارکرز واقعی جیت کے مستحق تھے کیونکہ آفریدی کا ذہن پورن سے آگے چل رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp