ہم حالت غم میں ہیں


یہ تحریر نہیں، نوحہ ہے۔ ہمارے روزمرہ کے غیر انسانی رویوں کا، ہماری انتہا پسندی کا، طاقت ور کی طاقت کے زعم کا، کمزور کیے بسی کا اور سب سے بڑھ کے اس قوم کی بے حسی کا۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مکتبۂ فکر سے ہے آپ امیر ہیں یا غریب، آپ آزاد خیال ہیں یا قدامت پسند، آپ مذہبی ہیں یا غیر مذہبی۔ آپ جو کوئی بھی ہیں خدا راہ صرف چند لمحوں کے لیے بھی خاموشی اختیار کر لیجیے۔ یہاں ہمارے جیسے چند لوگوں پر قیامت گزری ہے ہم حالت غم میں ہیں۔ آپ کی خاموشی ہماری المناک ہچکیوں کا درد تو کیا چنے گی لیکن شاید۔ شاید یہ ہمارے رنج کو مزید بڑھنے سے روک لے۔

کچھ سال قبل، ہمیشہ ذوالحج شروع ہونے سے پہلے یا مہینے کے دوران کوئی نہ کوئی عزیز خالق حقیقی سے جا ملتے تھے تو والدہ کہا کرتی تھیں کہ ذوالحج ہمیشہ ہمارے خاندان سے قربانی مانگتا۔ مہینہ شروع ہونے سے قبل دلوں کے اضطراب اور عبادات بڑھ جاتی تھیں۔ اس دفعہ یوں محسوس ہوا کہ اس قوم کی بیٹیوں کی قربانی کی باری ہے دھڑادھڑ کٹ رہی ہیں مر رہی ہیں۔ جانور اور عورت کی تخصیص ختم ہو گئی ہے۔ ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے جو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کی جا رہی ہیں وہ جانور ہیں یا ان کو ذبح کرنے والے۔

ہمیں بچپن سے جانور کی تعریف تو کچھ یوں بتائی گئی کہ عقل و شعور اور احساس سے ماورا مخلوق جانور ہے۔ کچھ چوپائے جو ہمارے لیے حلال کیے گئے ہیں انہیں بھی ذبح کرنے کے کچھ اصول اور طریقے ہیں جو ان کی موت کی تکلیف کو کم کرسکیں۔ تو پھر یہ کیسی اذیت ناک اموات ہیں جو عورتوں اور بچوں کا مقدر بن گئی ہیں جن کے تصور سے ہی کسی بھی ذی شعور کی حرکت قلب چند لمحوں کے لیے رک جائے۔ ہمارا ذہن اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اب جانور اور انسان کا فرق آنے والی نسلوں کو کس طرح سے بتایا جائے؟

شاید آپ ہماری مشکل کو حل کر سکیں۔ ہمارے نزدیک تو انسانوں کو کاٹنے، مارنے اور ذبح کرنے والے درندے ہیں ایسے درندے جن کی جگہ آہنی پنجروں کے پیچھے ہے جہاں یہ ہر لمحہ مریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ چڑیا گھر کے پنجروں میں قید اور زنجیروں میں بند ہے بے زبان جانوروں کو آزاد چھوڑ دیا جائے کیونکہ اب انسان کو صرف انسان سے خطرہ ہے بلکہ جانوروں کو بھی صرف انسان سے ہی خطرہ ہے۔

جن لوگوں نے یہ قبیح عمل کیے چلیں ان کے بارے میں تو ہم چند لمحوں کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ ہمارے ریاستی ادارے انصاف سے کام لیں گے اور یہ تمام انسان نما درندے آہنی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے اگرچہ امید تو نہیں۔ لیکن ان تماشبینوں کا کیا ہوگا جن کی زبانوں نے دو دھاری تلوار کا کام کیا، جن زبانوں نے مغلظات اگلے، جن کی باتوں نے غم زدہ کے زخموں پر نمک چھڑکا اور وہ جو سزا اور جزا کا پلڑا ہاتھ میں لیے زمینی خدا بن بیٹھے۔

عورتیں نہ ہو گئیں دس دس روپے میں ملنے والی پلاسٹک کی گڑیائیں ہو گئیں جن کے بازو اور ٹانگیں توڑ دو، بال نوچ لو اس پر دل نہ بہلے تو سر گردن سے اتار دو اور پھر ان کے ٹکڑوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے اگلی خریدنے کے لیے بڑھ جاؤ۔ اور پھر منہ بھر بھر کے ماں بہن کی گالیاں دو، من گھڑت احادیث کے حوالے دو، عورتوں کو عذاب عظیم کی وعید دو۔ اور وہ سب خواتین جنہوں نے آگے بڑھ بڑھ کر اس کار خیر میں حصہ لیا آپ کی ذہنی کیفیت پہ صرف افسوس کیا جا سکتا ایسی کیفیت جو اپنے ہی جیسے انسانوں کی تکلیف سمجھنے سے قاصر ہے ایسی حالت جو صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکتی اور خدارا یہ کہنا چھوڑ دیجئے کہ ان واقعات میں کیا نیا تھا یہ تو ازل سے ہوتے آرہے اور یہ بھی کہنا چھوڑ دیں یہ سب اسی کے قابل تھیں آپ، میں، ہم سب یہ نہیں جانتیں کہ کون کس قابل ہے اس اختیار کو خدا کے پاس ہی رہنے دیجئے۔ خدانخواستہ ان کی جگہ پہ آپ بھی ہو سکتی تھیں آپ ہو سکتی ہیں کیونکہ درندوں میں احساس نہیں ہوتا، لحاظ نہیں ہوتا، رشتے نہیں ہوتے کیونکہ وہ انسان نہیں انسان نما ہوتے ہیں۔

اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر خاموش ہی رہ لیجیے۔ جو نوحہ کناں ہیں انہیں اپنا غم ہی منا لینے دیجئے۔ آپ کی ہمدردی کے چند جملے کسی کا غم تو کیا ہلکا کرتے۔ لیکن آپ کی زبانوں سے نکلے تیر غمگین دلوں کو مزید چھلنی کرچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments