بھارتی کشمیر: سیکیورٹی اہل کاروں پر پتھر برسانے والوں کو سرکاری نوکری ملے گی نہ پاسپورٹ


فائل فوٹو
ویب ڈیسک — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ حکومت مخالف سرگرمیوں اور سیکیورٹی اہل کاروں پر پتھراؤ کرنے والے افراد کی نہ تو پاسپورٹ کلیئرنس ہو گی اور نہ ہی وہ سرکاری نوکری کے اہل ہوں گے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو بھارتی کشمیر میں کریمنل انویسٹی گیشن (سی آئی ڈی)، اسپیشل برانچ کی جانب سے تمام دفاتر کو مراسلہ جاری کیا گیا ہے کہ نقصِ امن کا باعث بننے والے افراد کے پاسپورٹس کی سیکیورٹی کلیئرنس نہ دی جائے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری نوکری کے حصول یا کسی بھی سرکاری اسکیم کے لیے ایسے افراد کی دستاویزات کی بھی تصدیق نہ کی جائے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔

بھارت کی نیوز ویب سائٹ ‘دی کوئنٹ’ کی رپورٹ کے مطابق نئے حکم نامے کے تحت تمام افراد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ اُن کا یا اُن کے خاندان کے کسی فرد کا سیاسی جماعت یا گروہ سے تعلق تو نہیں ہے یا ان کے کسی غیر ملکی تنظیم یا کسی کالعدم جماعت سے کوئی تعلق تو نہیں۔

ایسے افراد کی نشان دہی کے لیے پولیس ریکارڈ میں موجود سی سی ٹی وی فوٹیجز، تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو کلپس کی مدد لی جائے گی۔

اس سے قبل پرسنل منسٹری کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد اب یہاں جوینائل جسٹس ایکٹ (جے اے اے) بھی لاگو ہو گیا ہے۔

رواں برس فروری میں یونین منسٹر جتندرا سنگھ نے کہا تھا کہ ایسے افراد جو سیکیورٹی اہل کاروں پر پتھر برسانے کے لیے بچوں کا اسعمال کریں گے اُنہیں زیادہ سے زیادہ سات برس تک کی قید ہو سکے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اسٹون پیلٹنگ نہ صرف قانون کی نظر میں بلکہ انسانیت کے خلاف بھی جرم ہے۔

رواں برس جنوری میں بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ 2020 میں اسٹون پیلٹنگ کے واقعات میں 2019 کے مقابلے میں 87 فی صد کمی آئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ 2019 میں سیکیورٹی اہل کاروں کو پتھر مارنے کے 1999 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 1193 پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد رپورٹ ہوئے تھے۔

دلباغ سنگھ کا کہنا تھا کہ 2020 میں اسٹون پیلٹنگ کے 255 واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات بھارتی اشاعتی ادارے ‘منٹ’ اور نیوز ویب سائٹ ‘دی کوئنٹ’ سے حاصل کی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments