اقوام عالم کے مشترکہ اہداف


اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ( یو این ڈی پی ) جس کا قیام 1965 میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عمل میں لایا گیا اس کے اب تک تمام اقدامات سراہے جانے کے قابل رہے ہیں لیکن اس کے پروگرام ”پائیدار ترقی کے اہداف“ ( ایس ڈی جی گولز) قابل ستائش ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اقوام عالم کی کوششوں میں ان کا ساتھ دیا جائے اور ان اہداف کے حصول کے لئے اپنا کردار ادا کیا جائے ہمیں چاہیے کہ ہم اس سلسلے میں شعور اور آگہی پھیلانے کی کوششوں میں اپنے علاقے میں کم از کم اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔

ہمیں یہ جاننے کی بھی ضرورت بھی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا اور کیسی دنیا دے رہے ہیں ہمیں اپنے گھر، اپنے علاقے، اپنے شہر اور اپنے ملک کو خوشحال اور محفوظ بنانے کے لئے اپنے لوگوں کو خوشحال، صحت مند، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بھی بنانا ہوگا

آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ اہداف ہم یا ہمارے ملک و قوم کو کہاں اور کس کس محاذ پر اپنے قومی اہداف سے مماثلت کرتے نظر آتے ہیں پہلے ہم اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو کہ عموماً تمام ہی ترقی پذیر ممالک کے مسائل ہیں جن میں غربت، صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان، تعلیم کی کمی، صاف اور صحت بخش پانی کی عدم دستیابی، فنی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی، عدم تحفظ کو دور کرنا، ماحولیاتی آلودگی، زرعی اور صنعتی پیداوار کو فروغ دینا اور اس سے پیدا شدہ مسائل دریا اور سمندری حیات کو محفوظ بنانا جیسے مسائل ہم تیسری دنیا کو عوام کو درپیش ہیں اور ہم تمام مما لک ہی ان سے نکلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم اقوام عالم کے ساتھ مل کر ”پائیدار ترقی اہداف“ پروگرام میں شامل ہو کر اپنے مسائل کے حل کی قابل عمل تجاویز پر کام کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان اہداف کے بارے میں جان سکیں تاکہ اس پر عمل درآمد کی کوششیں بارآور ثابت ہو سکیں۔

ان اہداف میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آج کی بات کریں تو دنیا میں غربت کی شرح 2۔ 9 فیصد ہے یعنی 689 ملین افراد غربت کی سطح پر ہیں 107 ترقی پذیر میں 1۔ 3 بلین افراد ناقص صورتحال کا سامنا کر ہے ہیں

بات اگر پاکستان کی جائے تو اس وقت ہمارے ملک میں غربت کی شرح 4۔ 5 فیصد ہے جو کہ الارمنگ بھی ہے ہمیں ضرورت ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ مل کر اپنے اس مسئلے کو حل کریں اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک روڈ میپ تیار کر رکھا ہے جس میں اس مسئلے کہ ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے مسئلے کہ حل کے لئے رہنما ہدایات موجود ہیں اہم نکات درج ذیل ہیں

جامع اور پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کر کہ غربت کو کم کرنا اور پھر بتدریج ختم کرنا۔
غربت سے متاثرہ افراد کو مساوی حقوق اور سماجی تحفظ فر ہم کرنا۔
تمام قدرتی اور آفاقی و سماجی آفات کے درمیان اور بعد میں نئے مواقع پیدا کرنا۔

پائیدار ترقی کا دوسرا ہدف بھوک کا خاتمہ ہے دنیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سے ہزار ہا خؤاہشات و تدابیر اختیار کے باوجود آبادی کا ایک حصہ بھوکے رہنے پر مجبور بھی ہے جس کے لئے ہم سب کو کوششیں کرنے کی ضرورت ہے حالانکہ زراعت کی ترقی کی وجہ سے اجناس کی پیداوار فی ایکڑ بڑھ بھی رہی ہے لیکن بھوک کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے ہمارے ملک میں بھی تشویشناک ہو رہی ہے بھوک و افلاس ختم کرنے کے لئے اس پروگرام میں شامل ہونا ہر ترقی پذیر ملک کے لئے ضروری ہے مکمل اور مسلسل عمل درآمد کے لئے اقوا ام متحدہ کے اس ادارے کے اہم نکات پر نظر ڈالتے ہیں

خوراک کی پیداوار بڑھا کر تمام غذائیت کے ذخائر تک سب کی رسائی کو ممکن بنانا۔
ٹیکنالوجی کا بروقت اور بھرپور استعمال ممکن بنانا۔

پائیدار ترقی کے تیسرے ہدف کی بات کی جائے تو یہ صحت مند زندگیوں کو یقینی بنائیں اور ہر عمر اور ہر ایک کے لئے فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے۔ ہر ملک اور اس کی حکومت اپنے عوام کے لئے صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی چاہتا ہے لیکن یہ یقینی بنانا آسان بھی نہیں ہے آئیے اب ہم ان اہم نکات پر بھی نظر ڈالتے ہین کہ جن کے حصول کے لئے یہ ہدف رکھا گیا ہے۔

خواتین مین دوران زچگی شرح اموات کو کم کرنا۔
پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنا۔
تمباکو نوشی جو کہ بڑی اور مہلک بیماریوں کا باعث بن رہی ہے کو بتدریج کم کر کہ ختم کرنا۔
مواصلاتی اور غیر مواصلاتی میں شرح اموات کو کم کرنا اور دماغی صحت کو فروغ دینا۔

چوتھا ہدف تعلیم کا فروغ اور معیاری تعلیم کا فروغ ہے جامع اور مساویانی تعلیم کی فراہمی سب کے لئے یکساں تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہر شہری کا حق ہے اور ہر حکومت چاہتی بھی ہے لیکن وسائل کی کمی اس راہ میں بڑی رکاوٹ رہی ہے پاکستان میں شرح خواندگی کبھی بھی قابل اطمینان نہیں رہی ہے ہمیں بھی اس پروگرام کی ضرورت ہے اور اس کو جا ننا بھی ضروری ہے

مفت بنیادی اور سیکنڈری تعلیم کی فراہمی۔ قابل اساتذہ کی فراہمی۔

بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینا۔ معذور افراد کی تعلیم پر خاص توجہ دینا اور ان کو معاشرے کا مفید شہری بنانا۔

فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا حصول ممکن بنانا۔

ایسا نظام قائم کرنا کہ آنے والی نسل نہ صرف خواندہ ہو بلکہ پیشہ بھی ہو ان نکات پر کام کیا جانا ضروری ہے۔

صنفی مساوات کا فروغ بھی ایک اور اہم ہدف ہے ہمارے معاشرے میں با الخصوص اور دنیا بھر میں با العموم خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مثالیں عام ہیں ان ختم کرنا خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنا ان کے درست اعداد و شمار جمع کرنا حقائق پر مبنی لائحہ عمل تیار کر کہ اس عمل درآمد ممکن بنانا اس میں شامل ہیں جو کہ ہم بھی اپنے معاشرے میں چاہتے ہیں۔

صاف پینے کے پانی کی فراہمی اور صفائی کا مسلسل اور جامع نظام فراہم کرنا ایک اہم مسئلہ رہا ہے اس ہدف پر عمل درآمد کے لئے مکمل لائحہ عمل اس کی تمام جزئیات کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جیسے کہ کس طرح محفوظ اور سستا پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکے، حفظان صحت کے لئے صفائی ناگزیر ہے شعور ابھارنا، میٹھے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانا اہم ہیں۔

مہذب کام اور معاشی نمو کی آگہی کا فروغ بھی ایک اور اہم ہدف ہے اس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے میں روزگار کے مہذب ذرائع فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں اور آگہی کے ذریعے معاشی نمو بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔

پائیدار اور جامع انفرا سٹرکچر تیار کرنا تاکہ معاشی ترقی اور انسانی فلاح کے لئے مستحکم اور خوشحال ماحول مہیا کیا جا سکے اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال، صنعتوں، مالیاتی اداروں، معاشی منڈیوں اور صنعتی تحقیق کو فروغ ملے اور دنیا خوشحالی کی طرف بڑھ سکے۔

عدم مساوات کو کم کرنا یعنی دنیا میں موجود دولت چند ہاتھوں اور گروہوں سے نکال سب لوگوں تک مساویانہ تقسیم کا خواب

رنگ، نسل، مہذب اور عقائد سے بالاتر ہو کر عالمگیر، سماجی، اقتصادیات کو فروغ دینا اس اہم ترین ہدف کی خاص نکات ہیں اور ہم ان ہی پر اپنے ماحول اور ملک میں کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔

پائیدار شہر اور برادری کو فروغ دینا جس میں سستی اور محفوظ رہائش، ٹرانسپورٹ سسٹم، ثقافتی و قدرتی ورثے کا تحفظ ممکن ہو اور یہ سب بھی مساویانہ ہو رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کی بنیادوں سے دور محفوظ دنیا کے لیے اور اس کا حصہ بھی ہو،

ذمہ دار کھپت اور پیداوار کو بڑھانا تا کہ قدرتی وسائل کا بھر پور استعمال ممکن ہو سکے، کیمیکلز اور ویسٹ کا ذمہ دارانہ انتظام ہو سکے اور دنیا میں موجود ذرائع سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جاسکے۔

موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کے لئے جامع، مربوط اور مسلسل پالیسیز بنا کر عمل درآمد کیا جاسکے اس سلسلے میں شعور اور آگہی کا فروغ بھی انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ مستقبل میں آنے والی قدرتی آفات سے مستحکم طریقوں سے نمٹا جاسکے۔

پانی سے نیچے کی زندگی یعنی ہمارے سمندر اور سمندری حیات اور وسائل کو محفوظ اور پائیدار استعمال کیا جا سے اور سمندری آلودگی کو کم کیا جا نا بھی ضروری ہے، ماہی گیری کا محفوظ فروغ بھی وقت کی ہم ضرورت ہے ساحلوں کی صفائی اور حفاظت بھی بہت اہم ہے اس سلسلے میں بھی شعور اور آگہی کی ضرورت ہے۔

زمین ہر زندگی اہم ترین ہدف ہے کہ جس کے لئے ہماری کوششیں جاری و ساری ہیں جس میں ماحولیاتی نظام کی حفاظت، جنگلات کا تحفظ، حیاتیاتی تنوع کو روکنا، پہاڑوں کو تحفظ دینا، میٹھے پانی کے تمام ذخائر کو محفوظ اور قابل استعمال بنا سکنا اور رکھنا بھی اہم ہے۔

امن اور انصاف کے مضبوط ادارے بنانا تاکہ پر امن، جامع اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشروں کو فروغ دیا جاسکے ہر سطح پر ہر ایک کے لئے مکمل اور مسلسل، شفاف انصاف کا حصول ممکن اور میسر ہو، تشدد کو ختم کیا جا سکے، بچوں کے ساتھ بد سلوکی کو ختم کیا جاسکے، انسانی اسمگلنگ کو ختم کرنا بھی بہت اہم ہے۔

مقصد کے حصول کے لئے شراکت ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ عمل درآمد کے ذرائع کو مضبوط کرنا، پائیدار ترقی کے لئے عالمی شراکت داری کو دوبارہ زندہ کرنا ناگزیر تاکہ ہم سب اپنے اپنے گھروں، محلوں، شہروں، ملکوں میں خوشحال اور محفوظ زندگیاں گزار سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو یہ دنیا محفوظ اور خوبصورت اس کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دے سکیں۔

اقوام عالم کی طرف سے فراہم کردہ یہ تمام نکات انسان اور انسانیت کی فلاح اور اس کی بقا ہی کے لئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے پیغام کو عام کیا جائے شعور اور آگہی کا سلسلہ جاری رہے ہر سطح پر اور ہر پہلو کو اجاگر کیا جاتا رہے تاکہ عمل درآمد ہو سکے اس میں ہر ترقی پذیر ملک کے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments