لبرل ”ہم سب“ مخالف نقطہ نظر کیوں شائع کرتا ہے؟


ادارہ ”ہم سب“ کسی معاملے میں بحث مباحثے پر یقین رکھتا ہے تاکہ دونوں اطراف کے دلائل پڑھنے والوں کے سامنے آ جائیں اور وہ خود فیصلہ کر سکیں۔
”ہم سب“ کی انتظامیہ کسی معاملے میں لکھنے اور پڑھنے والوں پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کی مخالف ہے۔

لبرل ازم کی اسپرٹ یعنی روح یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر کھلے دل سے مکالمہ کیا جائے۔ لبرل رائے سے اختلاف رکھنے والے اصحاب اگر حقائق، شواہد اور دلیل کے ساتھ اپنی رائے پیش کریں تو ان کی رائے سے اتفاق کرنا بھی لبرل ازم کا تقاضا ہے۔ لبرل ہونے کا مطلب دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا نہیں بلکہ اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرنا ہے۔ ہمیں دوسروں کو سکھانا ہی نہیں، ان سے سیکھنا بھی ہے۔

سنہ 2016 میں سینیٹری نیپکن دیوار پر لگانے والے طلبا و طالبات کے معاملے میں بھی ایک سرگرم بحث ہوئی تھی جس کی حمایت اور مخالفت میں درجنوں پوسٹیں لبرل اور قدامت پسند حلقوں کی جانب سے شائع ہوئی تھیں۔ ہم نے غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں اطراف کے موقف کو شائع کیا۔ ایسے ہی مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہتی ہے جس سے دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہیں، اور آخری فیصلہ پڑھنے والوں کا ہوتا ہے۔

کسی ایک حلقے کا موقف ہماری رائے میں یا حقائق کی روشنی میں بالکل غلط ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے متعلق بات ہو گی تو پھر ہی وہ حلقہ اپنے موقف کی کمزوریوں سے آگاہ ہو پائے گا۔

اگر آپ کو اپنے تعلیمی دور کے مباحثے یاد ہوں تو اس میں کسی موضوع کو چن کر اس کی حمایت اور مخالفت میں تقاریر کی جاتی تھیں اور دلائل دیے جاتے تھے۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ طلبا اپنا موقف پیش کرنا اور دوسرے کے موقف کو ایک خوشگوار انداز میں رد کرنا سیکھ سکیں۔ ان مباحثوں کو ایسا ہی سمجھیں۔

اگر مباحثے میں صرف ایک رخ کی حمایت یا مخالفت میں مضامین لکھے جائیں تو اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کیا آپ اپنے ہم خیالوں کو اپنا مزید ہم خیال بنائیں گے؟ یا پھر اپنے نظریاتی مخالفین کو اپنا ہم خیال بنانا بہتر ہے؟ اگر کوئی شخص غلط موقف پر کھڑا ہے تو اس سے بات چیت کر کے اسے بتانا چاہیے کہ اس کے موقف میں کیا سقم ہے۔

کسی ایک بحث سے کوئی قائل نہیں ہوتا، مگر اس کے نتیجے میں سوچ کے وہ در وا ہو جاتے ہیں جو پہلے گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ یوں اپنی محدودات سے نکل کر سوچنے کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ اس سفر میں سب کو خوش آمدید کہنا چاہیے، خاص طور پر اپنے فکری مخالفین کو۔

اگر ہم کسی ایک فکری سوچ کے دباؤ میں آ کر صرف اسی کے مضامین لگانے لگیں تو یہ بات یاد رکھیں کہ دباؤ کے سامنے جھکنے کی صورت میں معاشرے کی اس غالب اکثریت کی جیت ہو گی، جو لبرل نہیں ہے۔ لبرل آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں اور یہ حق صرف اپنے لیے نہیں اپنے فکری مخالفین کے لیے بھی چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہم ملکی آئین کے تحت دیا گیا اظہار رائے کا حق استعمال کرنے کے داعی ہیں اور پاکستانی قوانین کے پابند ہیں۔ کسی شخص، گروہ یا عقیدے کی تحقیر والی تحریریں یا تشدد پر اکسانے والی یا ملکی سالمیت کے خلاف لکھے گئے مضامین شائع نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments