کہانی ایک دیسی گورے کی


وہ آیا۔

اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اگرچہ اسے اس کی ضرورت نہیں تھی، مگر پھر بھی چھڑی ایک علامت تو ہے۔ آپ جانتے ہیں نا وہ ایک کہاوت ہے ”جس کی لاٹھی۔“ ۔ سر کے بال بہت اچھے طریقے سے جیل لگا کر بنائے ہوئے، تازہ شیو کیا چہرہ اور لباس ایسا کہ بے شکن پتلون کی کریز صلاح الدین ایوبی کی تلوار کی دھار کی طرح تیکھی، قمیص بھی بالکل اچھی طرح استری کی ہوئی کہ شکن خورد بین لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ اور جوتے اس قدر چمکدار کہ جیسے ابھی شوکیس سے باہر آئے ہوں۔

دیسی گورا صاحب جنہیں اختصار کے لیے ہم دال گاف یا چلیں واو کاف کہہ لیتے ہیں ایک دیہاتی مڈل سکول میں براجے۔ سکول کا سٹاف جو ان کی آ مد کا سن کر پہلے سے ہی اٹینشن کھڑا تھا صاحب کی آن بان اور تیاری دیکھ کر تھوڑا اور رعب میں آ گیا۔ یہ ایک نیم پختہ دیہاتی سرکاری سکول تھا جس میں بجلی اکثر و بیشتر غالب ہی رہتی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے حبس اپنے جوبن پہ تھا دیسی گورا صاحب کی آ مد پہ کچھ اور بڑھ گیا۔

دیسی گورا صاحب نے اپنے استقبال کے لیے کھڑے اساتذہ کرام پہ نظر ڈالی اور ساری کہانی ایک لحظے میں جان لی اور خطبہ صدارت کے لیے کھڑے ہو گئے۔

یہ کس قسم کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تم لوگوں نے؟ انہوں نے اساتذہ کے پسینے میں بھیگے پرانے بار بار دھلے ہوئے سوتی کپڑوں پہ حقیرانہ نگاہ ڈالی اور گویا ہوئے۔ اس اچانک حملے سے اساتذہ کچھ سٹپٹا سے گئے۔ مگر کیا کر سکتے تھے۔

ایسا ہوتا ہے لباس۔ دال گاف نے اپنی پتلون اور قمیض کی طرف اشارہ کیا اور دکھانے کے لیے ٹانگ ذرا آ گے بڑھائی۔ ایسا لباس ہونا چاہیے ایک استاد کا کہ لباس پہ ایک شکن نہ ہو۔ وہ گھر سے نکلے تو لگے کہ دولہا جا رہا ہے۔ زمانہ مڑ مڑ کے اسے دیکھتا رہے۔ اور پھر ایک دم دھاڑے۔

اور یہ پاٹھی دیہاتیوں کی طرح شلوار قمیض کیوں پہن رکھے ہیں تم لوگوں نے۔ استاد ہو تم لوگ، پیغمبر کے عہدے پہ فائز ہو اپنا لباس بدلو، اپنی حرکتیں بدلو، اپنی زبان بدلو۔ یہ کیا جاہل چارہ کاٹنے والوں کی طرح آ پس میں پنجابی میں کھسر پھسر کرتے رہتے ہو۔ پنجابی بولنا بالکل چھوڑ دو۔ جتنی تم نے سیکھنی تھی سیکھ لی اب اردو بولنے کا وقت ہے اور انگریزی کا۔ اب دیہاتی مگر سرکاری استاد باقاعدہ بغلیں جھانک رہے تھے مگر دیسی گورا صاحب کا لیکچر جاری تھا۔

تم میں سے کسی نے سکردو کا نام سنا ہے؟ چند استادوں نے ہاتھ کھڑا کیا۔ جی بالکل وہی جس کا تم لوگوں نے فقط نام سنا ہوگا دیکھا کسی نے بھی نہیں ہوگا ابھی تک۔ تو میں انیس سو اٹھہتر میں وہاں گیا تھا جب وہاں تک سڑک نہیں بنی تھی اور ایک پرانا ائر پورٹ تھا اور پھٹیچر فوکر اڑا کرتے تھے۔ تب میں وہاں فوجیوں کو پڑھاتا رہا جو آجکل بڑے بڑے جرنیل ہیں۔ تو میں وہ ہوں جو گدھوں کو انسان بنا سکتا ہوں۔ میرے بنائے ہوئے گدھے مطلب انسان اپنی قطار سے آ گے پیچھے نہیں ہوتے اگر وہ اپنی حدبندی سے نکلنے کی ذرا سی بھی کوشش کریں تو میں ان کی پچھاڑی پہ ایک لگاتا ہوں۔ دیہاتی اساتذہ کا ہیبت سے برا حال تھا کہ دال گاف نے ایک نیا سوال داغ دیا۔

کیا آپ کے سکول کے بچے کھیلتے نہیں؟
ایک استاد نے ہمت کر کے منحنی سی آواز میں بتایا کہ جی کھیلتے ہیں مگر ان کے پاس کھیلوں کا سامان نہیں۔

اوہ۔ دال گاف نے افسوس کا اظہار کیا۔ میں سامان منگوا دیتا ہوں۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بولے ایک ٹینس بال اور ایک بلا ابھی لے کر آئیے۔ اساتذہ تھوڑے حیران ہوئے کہ ست ربڑی گیند ( ٹینس بال) اور بلے تو ان کے پاس کئی تھے وہ تو سمجھے تھے کہ صاحب بہادر کوئی کھیل کا میدان بنوائیں گے کوئی بہت سارا ساز و سامان دیں گے مگر یہ کیا؟

کوہ کندن و کاہ برآوردن

جب تقریر ختم ہوئی تو دال گاف صاحب کی خدمت میں آم کاٹ کر پیش کیے گئے جس پہ صاحب نے اپنے میزبانوں کو چھری کانٹے کی افادیت اور استعمال کا طریقہ کا سمجھایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے لوگ ہیں جو مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں چھری کانٹے کے بغیر آم چوس چوس کے کھا جاتے ہیں۔ اساتذہ کے پاس اپنی اس نا اہلی کا کوئی مناسب جواب نہ تھا سو انہوں نے بغلیں جھانکنے میں ہی عافیت سمجھی۔

آ خر پہ جاتے جاتے دیسی گورا صاحب نے کہا کہ یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرے گا جب تک کہ اس میں تم سب جیسے استاد پڑھائیں گے جو ایک دوسرے سے پنجابی میں بات کرتے ہیں اور شلواریں قمیضیں پہنتے ہیں اور جن کے شاگرد جنہیں ”استاد جی“ کہہ کر بلاتے ہیں۔

کیونکہ استاد صرف وہ ہوتا ہے جو ورکشاپ پہ چھوٹوں کو کام سکھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments