جینیٹک لاٹری اور پاکستانی سیاست


ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں عوامی رہنماؤں کی جو خوبیاں بتائی جاتی ہیں، یا دنیا کے عظیم رہنماؤں میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، ان میں قد کا اونچا ہونا، تقریر کرنے کا فن ہونا، اپنے آپ پر بلا کا اعتماد ہونا، دیانتدار ہونا اور اپنے وژن کا مالک ہونا اور ہر حالت میں اپنے نظریے پر قائم رہنا شامل ہیں۔

دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں یہ چلن ہے کہ عوامی لیڈر بننے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا وسیع تجربہ اور شہرت رکھتے ہوں۔ آپ سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے کے علاوہ قانون کی تعلیم اور اعلی سیاسی تربیت یافتہ انسان ہوں۔ آپ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھتے ہوں اور ان خوبیوں کی بنا پر عوام الناس کو قابل قبول ہوں۔ اور آپ ہر قسم کی اخلاقی و مالی بد عنوانی سے پاک ہوں۔

پاکستان کے تناظر میں اکثر نووارادگان عوامی رہنماؤں کی کوالیفیکیشن یہ ہے کہ ان کے آبا و اجداد اعلی سیاسی عہدوں پر فائز تھے۔ یہ خود ساختہ لیڈر اپنی سماجی خدمت کا طرہ لے کر میدان سیاست میں نہیں آئے۔ بلکہ مقدر نے ان کے ساتھ یاوری کی اس پیدائشی خوش قسمتی کو انگریزی زبان میں جینیٹک لاٹری کہا جاتا ہے۔

آئیے چند پاکستانی جینیٹک لاٹری یافتہ لوگوں سے ملتے ہیں۔

مریم نواز شریف 28 اکتوبر 1973 ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ سابق و مفرور وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیسس اینڈ میری کالج لاہور سے حاصل کی وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ مگر انٹرمیڈیٹ میں نمبر کم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے من پسند کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے میرٹ پر نہیں آ سکی تھیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان کو آرمی میڈیکل جس کا اس وقت کا میرٹ قدرے کم تھا، میں داخل کروا کر بغیر کسی تاخیر کے مائی گریشن کے ذریعے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور پہنچا دیا گیا۔

مگر یہ داخلہ متنازع ہو جانے کے بعد عدالت میں چیلنج ہو گیا جس وجہ سے ان کو ڈاکٹر بننے کے خواب سے دستبردار ہو نا پڑا۔ 1992 ء میں 19 سال کی عمر میں ان کی شادی کیپٹن صفدر اعوان سے ہو گئی۔ کیپٹن صفدر اعوان اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اے ڈی سی تھے۔ جن سے ماشا اللہ ان کے تین بچے پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2012 ء میں اپنی گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کرنے کی کوشش بھی مگر 2014 ء میں ان کی ماسٹرز ڈگری لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔ لہذا بنیادی طور پر ان کی کل تعلیم انٹرمیڈیٹ ہی رہی۔

انہوں نے 2018 ء میں قومی اور صوبائی نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے مسلم لیگ نون کی ٹکٹ حاصل کی۔ مگر ایون فیلڈ کیس میں ان کو سات سال جیل اور دس سال کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دیدیا گیا۔

مریم نواز اس تعلیم اور سیاسی تجربے کے ساتھ 2017 میں ان کے والد کی بطور وزیراعظم تنزلی کے بعد ان کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا وائس چیئرپرسن بنا دی گئیں۔ مریم نواز وہ جب تقریر کرتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محلے میں عورتوں کی لڑائی ہو رہی ہو۔ ان کی معلومات عامہ کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں، انتخابی مہم کے دوران ایک جگہ مجمعے میں، وہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگوا رہی تھیں اور دوسری طرف کسی اور کی لکھی ہوئی تقریر میں کہہ رہی تھیں کہ کشمیر کو پاکستان کا صوبہ نہیں بننے دیں گے۔ اتنے بڑے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ورنہ کوئی مسلم لیگی ہی پوچھ لیتا کہ میڈم جب کشمیر پاکستان بنے گا تو یہ پاکستان کا صوبہ نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟

بلاول بھٹو زرداری 21 ستمبر 1988 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گرامر سکول کراچی اور فروبل انٹرنیشنل اسکول اسلام آباد سے حاصل کرنے کے بعد گریجویشن کے لیے برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے تاریخ اور سیاست میں بیچلر کی ڈگری آکسفورڈ یونیورسٹی سے الحاق یافتہ کرائسٹ چرچ کالج سے حاصل کی۔ جس کو بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے اب گریڈ کر کے ماسٹر ڈگری میں تبدیل کر دیا۔ اس سے قبل 30 دسمبر 2007 ء کو اپنی والدہ کے قتل کے بعد 19 سال کی عمر میں ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا۔ 2018 ء کے الیکشن میں بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ ان کے والد صدر پاکستان اور والدہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے ہیں۔ جبکہ ان کے نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان اور وزیر اعظم دونوں عہدوں پر فائز تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تینتیس سالہ زندگی میں کبھی کوئی سماجی کام نہیں کیا۔ وہ عوام اور بندہ مزدور کے اوقات سے قطعی نا بلد ہیں۔ ان کی پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے۔ جس کے ضلع تھر پارکر میں ہر سال سینکڑوں بچے بھوک اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔ ان کو الیکشن کے موسم کے علاوہ تھر کے صحرا میں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ ان کی قومی زبان پر گرفت کمزور ہے۔ اور اپنا کوئی خواب آدرش یا وژن نہیں ہے۔

اعجاز الحق سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر ضیاء الحق کے صاحبزادے ہیں۔ آپ 20 فروری 1952 ء کو نوشہرہ خیبر پختون خواہ میں پیدا ہوئے۔ ایم بی اے کی ڈگری جنوبی اینائرز یونیورسٹی امریکہ سے حاصل کی۔ پاکستانی سیاست میں وارد ہونے سے پہلے اعجاز الحق ایک بینکر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ 1988 میں جب ان کے والد ہوائی حادثے میں فوت ہوئے تو آپ سیاست میں آپ گئے۔ آپ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔ جنیٹک لاٹری کے بل بوتے پر وہ پاکستان مسلم لیگ (ض) کے خود ساختہ چیئرمین ہیں۔

آپ کے والد جنرل ضیاءالحق جالندھر اور والدہ بیگم شفیقہ یوگنڈا کی تھیں۔ ضیاء الحق 12 اگست 1924 ء کو جالندھر ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ وہ دیرہ دون اکیڈمی ہندوستان کے کمیشن یافتہ تھے۔ فور سٹار جنرل ضیاء الحق پاکستان میں سب سے طویل مدتی آرمی چیف اور صدر مملکت تھے۔ انہوں نے بطور آرمی چیف 1977 ء ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ 1978ء میں انہوں نے اپنے آپ کو صدر مملکت کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اس عہدے پر وہ 1988 ء تک رہے۔ اگر جرنل ضیا الحق بہاولپور کے قریب ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو ہوتے تو شاید ابھی تک پاکستان کے صدر ہوتے۔

اعجاز الحق سٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی ڈیلر کا تجربہ رکھنے کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان میں متعدد پلازوں کے مالک ہیں۔ ان کا قومی سطح پر کسی بھی سماجی کام کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔

وقت کا اہم اور فوری تقاضا ہے کہ :

آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹیرینز کے لئے کم از کم پانچ سے دس سال کا سماجی کام کا تجربہ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔

آئین اور ملکی قوانین کی تعلیم کا ایک کیڈر ان نمائندگان کے لئے لازمی ہو جو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے خواہشمند ہیں۔

انتخابات لڑنے کی درخواست کے ساتھ تمام مالی اثاثوں کی چھان بین کسی آڈٹ فرم سے کروا کر سرٹیفیکیٹ درخواست کے ساتھ منسلک کرنا لازمی قرار دیا جائے۔

عوام سے درخواست ہے کہ وہ خاندانی سیاست اور جینیٹک لاٹری ہولڈر سیاست دانوں کو الیکشن میں مسترد کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments