سفارش، خارش اور بارش


کئی لوگوں پر ہمیشہ نعمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے تو چند لوگوں کے ہاتھوں پر ہمیشہ خارش ہوتی رہتی ہے مگر وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ اپنی تمام تر ناکامیوں کی وجہ سفارش نہ ہونا سمجھتے اور بتاتے ہیں وہ یہ راز جان نہ پاتے ہیں کہ جو لوگ خود اپنی سفارش نہیں بن سکتے، ان کو کسی کی سفارش کبھی کام نہیں دے سکتی۔ ان کی زندگی اس شعر کی عملی تصویر ہوتی ہے۔ :

دھوپ نے گزارش کی
ایک بوند بارش کی

سفارش کی خارش بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ساری زندگی بندے کے اندر آگ لگائے رکھتی ہے۔ کسی زمانے میں جھنگ کے ایک مشہور حکیم بسوں میں خارش ختم کرنے والی دوائی بیچا کرتے تھے بقول ان کے وہ دوائی اتنی اکسیر تھی کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی خارش اور بارش کی زیادتی کی وجہ سے ہونے والی خارش، دونوں کا شافی علاج تھی لیکن سفارش کی خارش کے بارے میں وہ حکیم صاحب بھی خاموش رہتے تھے۔ اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سفارش کی خارش کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔

ہمارے ہاں کا ایک محاورہ ہے کہ خواہش اور خارش کے مارے ہوئے انسان کا حال اور انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں سفارش کے متلاشی شخص کا حال بھی کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ جیسے بے وقت کی بارش کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیتی ہے ایسے ہی سفارش کی بے جا خارش بہت سے لوگوں کو اپنے قدموں پہ کھڑا ہی نہیں ہونے دیتی۔ ہمارے ہاں گرمی کا موسم بڑا ظالم ہوتا ہے مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بعض لوگ بارش کی دعا زیادہ مانگتے ہیں یا سفارش کی۔

آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ ہمارے ہاں بارش نہ ہونے سے لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں یا سفارش نہ ہونے سے۔ بارش اور سفارش میں بڑا عجیب تعلق ہے بارش نہ ہو تو بھی بیماریاں پھیل جاتی ہیں اور اگر بارش زیادہ ہو جائے تو بھی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سفارش نہ ہو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ سفارش کا نہ ہونا بہت بڑی کمزوری ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ زیادہ سفارشوں کا ہونا بھی انسان کو بہت کمزور کر دیتا ہے۔ سفارش کے ساون میں بھیگتے شخص کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ساون کے بعد بھادوں بھی آتا ہے۔ سفارش کو کلیدی کامیابی سمجھنے والا شخص در در پھرتا ہے اور ہر وقت اپنے صاحب استطاعت عزیزواقارب سے یہی گلہ کرتا رہتا ہے۔ :

میں وہ صحرا جیسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کر برسا ہی نہیں

وہ ہمیشہ حالات کا شاکی رہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہر شخص کو سفارشی میسر ہے سوائے اس کے۔ اس کے حالات تو کچھ ایسے ہیں۔ :

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

غریب کی خارش کو جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں ”کھرک“ بھی کہا جاتا ہے۔ زیادہ خارش کرنے والے کو ”کھرکی“ کہا جاتا ہے۔ ”کھرکی“ اور ”ٹھرکی“ دونوں کو ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر ٹھرکی مزے میں ہوتا ہے اور ”کھرکی“ عذاب میں۔ سفارش کا ”کھرکی“ تو دوسروں کی زندگی بھی عذاب کیے رکھتا ہے۔

میرے ایک سرکاری ملازم دوست، سرکاری کالونی میں اچھے خاصے گھر میں رہتے ہیں مگر پھر بھی ہر وقت عمدہ گھر کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک دن مجھے دبے دبے لفظوں میں کہنے لگے کہ فراز صاحب نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب وہ سرکاری ملازم تھے تو ابتدائی ایام میں ان کے پاس کچا مکان تھا۔ وہ مزید کہنے لگے بعد میں وہ سفارش کروا کر بہترین رہائش گاہ میں منتقل ہو گئے مگر ہمارے جیسے غریبوں کے نصیب میں ایسا فراز کہاں۔ ہم تو اسی نشیبی کالونی میں زندگی کے باقی دن بھی گزار دیں گے۔ :

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ایسے ہی لوگوں کو ہمیشہ تقدیر سے یہ گلہ رہتا ہے کہ ان کے نصیب کی بارشیں کسی اور آنگن میں برستی رہتی ہیں اور ان کی نسلیں اچھے دنوں کو ترستی رہتی ہیں۔

بارش بنجر زمین کو ہرا بھرا کر دیتی ہے۔ برگ و بار پر بہار آ جاتی ہے۔ انسان اگر سفارش کی خواہش سے نجات پالے تو اس کے کردار میں نکھار آ جاتا ہے۔ اسے محنت کی عظمت پر اعتبار آ جاتا ہے اور اس کے جسم و جان کو قرار آ جاتا ہے۔

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments