سامری بزرگ کا دوسرا جنم


\"\"

یہ22 مارچ 2017ء کی ایک سہانی صبح تھی۔ موسم بہار شروع ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ سبزہ اور پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ صبح جلدی بیدار ہونے والے مرد و زن مشرق سے طلوع ہوتے سورج کے دل کش نظارے کے ساتھ ساتھ پھولوں کی خوش بوؤں سے مہکی خوش گوار ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ عراقی شہر سامرا کے نزدیک ایک چھوٹی سی عیسائی بستی کا واقعہ ہے۔ عراق کے کئی شہروں موصل، رمادی، اور تکریت کی طرح سامرا بھی کافی عرصے تک داعش کے قبضے میں رہا اور انہوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں آثار قدیمہ کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن اب حالات بدل گئے تھے۔ جمعہ 20 جنوری کو ڈونالڈ ٹرمپ امریکا کے پینتالیسویں صدر کا حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو چکے تھے۔ ایک طرف کرد اور عراقی افواج جدید امریکی اسلحہ اور فوجی ماہرین کے تعاون سے عراق سے داعشیوں کا صفایا کر چکے تھے اور دوسری طرف شامی حکومت روس کی مدد سے داعش اور دیگر باغیوں کو شام سے بھگا چکی تھی۔ بیش تر باغی لڑائیوں میں مارے گئے۔ جو زندہ بچ گئے وہ داڑھیاں منڈوا کر اور برقعے پہن کر اردن، سعودیہ، ترکی، اور لبنان کی طرف بھاگ گئے۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد سرحد پر پکڑی گئی اور جیلوں میں ٹھونس دی گئی۔ داعش اور باغیوں کے صفایا کے بعد عراق و شام میں امن قائم ہو چکا تھا۔ مسلمان، عیسائی، یزدی، اور کرد اپنے اپنے شہروں اور بستیوں میں واپس آ کر ان کی تعمیر نو میں لگ گئے تھے۔ اب آتے ہیں اصل واقعہ کی طرف۔

کچھ لوگ جو بستی سے باہر کھیتوں میں صبح کی دل کشی اور مناظر فطرت سے لطف اندوز ہو رہے تھے ایک نورانی صورت والے سفید ریش بزرگ کو بے حد قدیم اور پھٹے پرانے لباس میں گھومتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چند مرد بھاگ کر بستی گئے اور ان بزرگ صورت کے لیے مناسب کپڑے لے آئے۔ بزرگ نے نئے کپڑے پہن لیے اور حیران ہو ہو کر ان کپڑوں پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے رہے۔ لیکن نہ تو وہ لوگوں کی بات سمجھ رہے تھے اور نہ ہی لوگ ان کی۔ بستی کے چند افراد ان بزرگ کو سامرا لے گئے۔ وہاں ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ آثار قدیمہ کے دو ماہرین ڈاکٹر فرانسس سمائیل اور ڈاکٹر دانیال گالٹ موجود تھے۔ وہ داعشیوں کے ہاتھوں قدیم تاریخی عمارات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے اور ان کی بحالی کا پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے عراق آئے تھے اور سامرا کے ایک جدید ترین ہوٹل میں مقیم تھے۔ انھوں نے سانتا کی شکل والے اس نورانی صورت بزرگ کی سکونت کا انتظام بھی ہوٹل کے ایک کمرے میں کر دیا۔ وہ کوشش کے باوجود بزرگ کی زبان تو نہ سمجھ سکے لیکن جان گئے کہ ان بزرگ کا تعلق کم از کم ڈیڑھ دو ہزار قبل کے زمانے سے تھا۔ یہ ایک حیران کن دریافت تھی۔

\"\"

سامرا میں ایک سفید ریش نورانی صورت بزرگ کی آمد کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ دنیا بھر میں ہر عقیدے کے شخص کو یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ شخص ضرور خدا کا بھیجا ہوا وہ نیک بندہ ہے جو کہ ان کی نجات کے لئے آنا تھا۔ عیسائیوں کو یقین تھا کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں تشریف لے آئے ہیں۔ یہودی سمجھتے تھے کہ جس مسیح کا وہ صدیوں سے اور بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے بالاخر نازل ہو گئے۔ شیعہ مسلمان خوش تھے کہ امام غائب سامرا کے غار سے برآمد ہو گئے۔ سنی مسلمان بھی ان بزرگ کو امام مہدی سمجھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ لیکن اس بزرگ کی زبان نہ سمجھنے کے سبب کسی کو اصل حال معلوم نہ ہو سکا کہ یہ شخص آخر ہے کون۔

ڈاکٹر فرانسس اور دانیال نے ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر ڈاکٹر ڈریو فاسٹ کو اپنی نئی ”دریافت“ سے آگاہ کر دیا۔ ڈاکٹر فاسٹ نے وائٹ ہاؤس اور امریکا کے ممتاز سائنس دانوں سے رابطہ اور مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سامرا کے ان بزرگ کو امریکا بلوا کر قدیم زبانوں کے ماہرین کی مدد سے ان کی زبان سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سامری بزرگ کو امریکا لانے کے لئے ایئر فورس ون شام بھیج دیا۔ سامری بزرگ کو کسی شہنشاہ کی طرح ایئر فورس ون طیارے میں سوار کرکے واشنگٹن روانہ کر دیا گیا۔ عیسائیوں کے پرزور اصرار پر طیارے کو پہلے پیرس اور پھر لندن میں اترنا پڑا۔ دونوں شہروں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سامری بزرگ کے دیدار کے لئے امڈ آیا۔ یہی احوال واشنگٹن کا تھا۔ امریکی صدر، ارکان کانگریس، ماہرین آثار قدیمہ، قدیم زبانوں کے ماہرین، عام شہری، اور اسکولوں کالجوں کے طلبہ و طالبات بھی سامری بزرگ کے استقبال کے لیے نیشنل ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ نیز ایئر پورٹ سے وائٹ ہاؤس تک سارے راستے کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔

\"\"

سامری بزرگ کو اس سفر میں ہر چیز نئی اور ان ہونی لگ رہی تھی۔ فلک بوس عمارتوں، پختہ سڑکوں اور ان پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں، صاف ستھرے اور برقی قمقموں سے روشن بازاروں، ہوا میں اڑتے جہازوں، اور رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس خوب صورت بچوں بچیوں کو دیکھ کر وہ انگشت بہ دندان ہی نہیں دست بہ دندان دکھائی دے رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس میں انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے سامرا کے بزرگ کی تواضع کی گئی۔ کھانے سے فراغت کے بعد سامری بزرگ بولنے لگے۔ عام لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا لیکن قدیم زبانوں کے ماہرین خصوصا ڈاکٹر روز اسٹون، ڈاکٹر چومسکی، اور ڈاکٹر پیٹر ناش کافی غور و خوض کے بعد بزرگ کی بات سمجھ گئے۔ انھوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بتایا کہ سامری بزرگ ایک مسیحی راہب ہیں جو کہ اپنی شدید ریاضت اور مجاہدوں کے سبب منجمد ہو گئے تھے اور بارود سے حرارت پا کر دوبارہ جی اٹھے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں، ”میں اپنے شان دار استقبال اور خاطر مدارت پر بہت خوش اور آپ کا مشکور ہوں۔ بلاشبہ جنّت میرے خواب و خیال سے بھی بڑھ کر حسین ہے۔ کیا میں اب ہمیشہ یہیں رہوں گا یا مجھے خداوند خدا کے دربار میں لے جایا جائے گا اور مجھے سزا یا انعام دینے کا فیصلہ ہو گا؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments