داسو میں چینی کمپنی کی بس پر حملہ: شہر میں فوج کی آمد، اضافی حفاظتی اقدامات اور چوکیاں قائم

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


30 سے 40 افراد غضوبہ کمپنی کے برسین کیمپ کے احاطے میں ایک یادگار کے سامنے افسردہ کھڑے ہیں۔ سیمنٹ اور ٹائلز سے بنی اس تختی پر نو چینیوں اور چار پاکستانیوں کے نام درج ہیں۔ یہاں پھول رکھے گئے اور پھر ایک منٹ کی خاموشی اور دعائیہ کلمات ان 13 افراد کے لیے ادا کیے گئے جو تین ہفتے قبل داسو میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ 14 جولائی کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپر کوہستان کے علاقے میں بس سے ایک گاڑی ٹکرانے کے نتیجے میں دھماکہ ہوا تھا۔

نتیجے میں چینی انجینیئروں سمیت کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ چینی انجینئیرز اور دیگر عملہ دو بسوں میں معمول کے مطابق صبح کی شفٹ میں داسو ہائڈرو پاور پراجیکٹ پر اپنے کام پر جا رہا تھا۔

ابتدا میں پاکستانی حکام نے اسے گیس لیکج کے باعث پیش آنے والا حادثہ قرار دیا تاہم بعد میں کہا گیا کہ اس میں دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

چینی کمپنی غضوبہ نے پاکستانی عملے جس کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے کو کام سے فارغ کر دیا تھا لیکن ایک روز بعد نوٹس واپس لیا گیا۔

پراجیکٹ سے عید کی چھٹی پر گھروں کو روانہ ہونے والا عملہ نوکری پر بحال تو کر دیا گیا ہے لیکن عملے کے بہت سے ارکان سمیت سینکڑوں مزدور اب بھی کام پر واپسی کے منتظر ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ وہاں موجود چار چینی کمپنیوں میں سے ایک داسو آفیسرز کالونی میں محدود کام کر رہی ہے۔

مرکزی شاہراہ قراقرم پر واقع برسین کیمپ سے پانچ سو میٹر کی دوری پر جہاں ایک گاڑی چینی کمپنی کی بس سے ٹکرائی تھی، اب بھی وہاں اس بس کی سیٹ اور کچھ حصوں کے جلے ہوئے ٹکڑے موجود ہیں اور اردگرد کی گھاس پھوس اور جھاڑیاں جلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

مقامی افراد بتاتے ہیں مرکزی شاہراہ پر وی آئی پی موومنٹ تب ہی ہوتی ہے جب کوئی اہم چینی یا پاکستانی وفد یہاں آتا ہے۔

رابطہ کرنے پر چینی کمپنی کے ایک اہلکار بتایا کہ فوج آ چکی ہے تو سننے میں آرہا ہے کہ 14 اگست تک کام شروع کر دیا جائے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جب تک کمپنی حتمی اعلان نہیں کرتی ہم لوگ کام پر واپسی کے حوالے سے پر یقین نہیں ہو سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ابھی تو اس پراجیکٹ کا 15 فیصد کام بھی پورا نہیں ہوا۔

ہسپتال کی عمارت میں سینکڑوں فوجی اہلکار

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ داسو میں فوج پہنچ تو چکی ہے لیکن ابھی فوج نے وہاں باضابطہ طور پر سکیورٹی کا چارج نہیں سنھبالا۔ وہاں پہنچنے والے کئی فوجی اہلکار ابھی علاقے کے ڈی ایچ کیو ہسپتال کی غیر فعال عمارت تک محدود ہیں۔

یہ پراجیکٹ واپڈا کے زیر انتظام ہو رہا ہے۔ واپڈا اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پہلے کہا گیا تھا کہ 28 جولائی کو کام شروع ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ کام ہو رہا ہے، چھوٹے موٹے کام شروع ہیں، سکیورٹی کے لیے بجلی بحال کرنی تھی وہ کی ہے، پانی کا لیول بھی بڑھ گیا تھا اسے نکالنا تھا، اہم کام غضوبہ کے پاس ٹنل میں کرنا ہے، لیبر اور سٹاف کو ابھی نہیں بلایا ہے۔ جہاں الیکٹریشن اور پلمبر کی ضرورت تھی اس کو بلایا ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ لوگ کام بند ہونے پر بہت مایوس ہیں۔ ان کا آپس میں لین دین اسی امید پر تھا کہ کام ملے گا۔ اوپر بازار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔

امن جرگہ اور فوج کا کوہستان میں سکیورٹی سنبھالنے کا اعلان

علاقے میں تقریباً 800 سے زیادہ فوجی اہلکاروں کی آمد، کچھ چیک پوائنٹس پر پوچھ گچھ اور اوپر کمیلہ بازار میں رکھے پتھر مکینوں کو دھماکے کے بعد اپنے علاقے میں آنے والی تبدیلی کا پتہ دے رہے تھے۔

واپڈا کے اہلکار نے بتایا کہ چینیوں کے سکیورٹی کے مطالبے پر فوج داسو شہر میں آئی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ کوارٹر میں جو کہ زیر تعمیر تھا، آٹھ سو کے قریب فوجی اہلکار آگئے ہیں اور کچھ آرمی 35 کلومیٹر دور پٹن میں ہے، جو اس واقعے کے بعد آئے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ’ریزروائر کا علاقہ چونسٹھ کلومیٹر ہے۔ پہلے پولیس والوں کی جانب سے اتنی چیکنگ نہیں ہوتی تھی اب وہ پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آ رہے ہیں کدھر جا رہے ہو۔’

واضح رہے کہ علاقے میں چیک پوائنٹس کا اضافہ تو ہوا ہے لیکن ابھی فوج کو تعینات نہیں کیا گیا اور پولیس اہلکار ہی سکیورٹی سنبھالے ہوئے ہیں۔

فوج نے علاقے میں پہنچنے کے چند روز بعد اپنی آمد کا باضابطہ اعلان کرنے کے لیے تین اگست کی سہ پہر 60 افراد کا امن جرگہ داسو سرکٹ ہاؤس میں بلوایا۔

پاکستانی حکام نے دو مشتبہ افراد کو جن کا تعلق لاہور سے ہے، بلوچستان سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کچھ گاڑیوں کی فوٹیج بھی شئیر کی جا رہی ہے کہ مبینہ طور پر ان میں سے ہی کوئی گاڑی چینی کمپنی کی بس سے 14 جولائی کو ٹکرائی ہو گی۔

مقامی صحافی شمس الرحمن شمس نے بی بی سی کو بتایا کہ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے برگیڈئیر حبیب اللہ نے کہا کہ داسو بس دھماکہ ایک دہشت گرد نے کیا، یہ کام مقامی سپورٹ‌ کے بغیر ممکن نہ تھا، دہشت گرد کہاں‌ کہاں گیا اور رات کہاں ٹھہرا، سب پتہ چل گیا ہے، عنقریب حقائق سامنے آ جائیں ‌گے۔

ملک میر ہزار خان اس جرگے میں موجود افراد میں شامل تھے۔

بی بی سی سے فون پر گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے فوج کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے جب سوات میں دہشت گرد آئے تھے تو ہم نے فوج سے کہا تھا کہ آپ یہاں مت آئیں ہم اپنے علاقے کی حفاظت خود کریں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ فوج کی آمد سے ایک تبدیلی تو آئے گی ’پہلے جہاں پہنچنے میں آدھ گھنٹہ لگتا تھا اب دو گھنٹے لگیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں ’چیک ہوسٹیں لگ گئی ہیں، پولیس لوگوں کو جانتی ہے وہ نہیں روکتی، ہم نے کہا ہے کہ فوج پیچھے ہو جائے پولیس کو اپنے آگے رکھے اور پولیس کو ذرا تیز کریں۔’

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 1983 میں ہزاروں چینیوں نے شاہراہ ریشم بنائی کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ سوات کی سرحد تھی اس وقت بھی فوج ادھر آئی ہم نے فوج کو کہا کہ آپ کے پیچھے طالبان آئیں گے۔ آپ ہمارے علاقے میں مت آئیں۔’

میر ہزار خان کہتے ہیں کہ داسو دھماکے سے برسوں پہلے ہم پولیس کی کارکردگی پر بات کر رہے تھے، واپڈا کی کارکردگی بھی ناقص رہی ہے اور چینی کمپنیوں نے بھی ہر علاقے کے لوگوں کو بھرتی کیا ہوا تھا، گاڑیاں افغانوں کی بھی لگائی گئیں، ہم نے کہا تھا مسئلہ بنے گا۔’

جرگے میں شامل مقامی شخص اور سماجی کارکن عبدالجبار نے فون پر رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ ’جرگے میں ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ علاقے میں ایک آرمی بریگیڈ آگئی ہے جو کوہستان کے تینوں حصوں میں ہو گی، بشام، پٹن اور داسو۔ اپر کوہستان میں دو جگہ شتیال اور داسو لوئر میں پٹن اور بشام۔’

وہ کہتے ہیں کہ اگر فوج نے ’ہمارے معاملات میں مداخلت کی تو مسئلہ بنے گا لیکن بریگیڈیر صاحب نے باور کروایا ہے پولیس چیکنگ کرے گی وہ (فوجی اہلکار) صرف وہاں کھڑے ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہمیں فوجی حکام نے بتایا ہے کہ ’آپ کے مقامی معاملات میں مداخلت نہیں ہوگی، روایات کا احترام کیا جائے گا داسو ڈیم اور واپڈا کے معملات سے فوج کا تعلق نہیں ہوگا، فوج صرف سکیورٹی دیکھے گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تجویز دی ہے کہ بے شک لگائیں آپ چیک پوسٹ لیکن مقامی لوگوں کو کوئی پاس دیں تاکہ رجسٹرڈ مقامی لوگوں کو تلاشی کی مشقت سے نہ گزرنا پڑے۔’

ڈپٹی کمشنر اپر کوہستان عارف خان یوسفزئی کا موقف ہے کہ ’بدقسمتی سے دھماکے کے بعد فوج کو طلب کرنا پڑا۔‘

’جہاں‌ بھی ضلعی انتظامیہ کو فوج طلب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو پاکستان آرمی آجاتی ہے اور اپنے ڈومین میں کام کرتی ہے، بدقسمتی سے داسو بس دھماکے کے بعد ضلعی انتظامیہ کو سکیورٹی انتظامات کے لیے فوج طلب کرنا پڑی، اب وہ یہاں پہ آگئے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟

کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، سات ہلاک

بلوچ مزاحمتی تحریک اب کوئی مسئلہ نہیں: چینی سفیر

چین کی پاکستان میں اپنے شہریوں کو ہوشیار رہنے کی ہدایت

داسو کا مرکزی بازار شاہراہ قراقرم، کے کے ایچ پر ہی موجود ہے۔ لیکن حملے کے کچھ ہی دن کے بعد داسو بازار میں بلا کسی نوٹس کے مرکزی سڑک پر رکھے پتھروں نے دکانداروں اور ڈرائیورز کو پریشان تو کیا مگر وہ اس اقدام پر حیران بھی تھے۔ کیونکہ ان کے پاس گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے کوئی اور ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔

بازار میں لوگوں سے بات کریں تو وہ فوج کے آنے پر ناخوش نہیں، وہ کہتے ہیں کہ فوج نے انھیں یقین دلایا ہے کہ وہ ’ہماری روایات کا احترام کریں گے‘۔ یہ لوگ فوج کی جانب سے اعلان کیے جانے والے پیکج کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

بقول سماجی کارکن عبدالجبار ’آپ کو معلوم ہے فوج جہاں جاتی ہے وہ ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی کرتی ہے۔ کوہستان کے لیے بھی سالانہ، سہہ ماہی منصوبے ہوں گے۔’

ایک دکاندار نے بتایا کہ پورے اپر کوہستان میں گاڑیوں کے لیے کوئی اڈا نہیں ہے۔ اس سے بازار میں تاجر برادری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے ضلعی انتظامیہ نے متبادل اڈے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ گاڑی کھڑی ہونے سے لوگ کام کے بغیر بیٹھے ہیں۔’

بازار میں کپڑے کے ایک تاجر نے بتایا کہ ’اڈے کے مسئلے کے لیے برگیڈئیر حبیب اللہ نے کہا ہے کہ ڈی سی صاحب کے ساتھ مل کر ایک جامع پلان بنایا جائے گا اور کندیہ، جالکوٹ اور سیو کے لیے تین اڈے بنائے جائیں گے۔’

موبائل شاپ پر اپنے کام میں مصروف ایک نوجوان نے کہا کہ ’مجھے بتایا گیا ہے کہ عید کے بعد کی صبح آئے تو دیکھا سڑک پر ایک جانب پتھر رکھے ہوئے تھے۔‘

بس حادثہ

وہ کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ ’کوئی گاڑیاں نہ کھڑی ہوں جب وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے تو مسئلہ ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ سامان ان لوڈ اور لوڈ کرنے کے لیے اب ’پولیس والے ہمیں چار، پانچ منٹ دیتے ہیں۔‘

کوہستان میں لوگ ہائڈرو پاور پراجیکٹ سے منسلک زمینوں کے معاوضے اور دیگر حقوق کے لیے احتجاج کرتے رہتے ہیں۔

لیکن اس روز جرگے سے خطاب کرتے ہوئے ڈی پی او اپر کوہستان عارف جاوید نے جہاں دھماکے میں ملوث افراد کو پکڑنے کا عزم دہرایا وہاں لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ آج کے بعد شاہراہ قراقرم ‌کی بندش کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ‌ہوگی۔ اگر احتجاج کی آڑ میں کوئی سڑک بلاک کرے گا تو پولیس لازمی کیس رجسٹر کرے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp