چار چاند کی سراپا نگار نیلم احمد بشیر


(منیر احمد فردوس)۔\"\"

26 دسمبر 2016ء کی خنک، چمکیلی شام لاہور کے گرد و پیش کو چمکاتے ہوئے ایمبیسیڈر ہوٹل کے ہال میں بھی اتر چکی تھی، جہاں پنج ریڈیو یو ایس اے کی پانچ سالہ تقریب جاری تھی، جس میں شریک لاہور کے ادبی، سماجی اورشوبز سے تعلق رکھنے والے چمکتے دمکتے چہروں نے تقریب کو نئے زاویئے عطا کر دیئے تھے۔ مائک پرکھڑے معروف شاعر سعداللہ شاہ لفظوں کے خوب صورت پرندے اڑا رہے تھے جن کی پھڑپھڑ سے ہال گونج رہا تھا۔ پنج ریڈیو یو ایس اے کی روحِ رواں اور معروف شاعرہ الماس شبی ہواؤں کی انگلی تھامے ادھر سے ادھر اڑتی مہمانوں کو خوش آمدید کہتی پھر رہی تھیں۔ لاہور اسلام آباد کے نام ور ادیب مسکراتے چہروں کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے۔ جن میں اردو افسانہ کو نئی دھڑکنیں عطا کرنے والی اہم افسانہ نگار نیلم احمد بشیر بھی شامل تھیں۔ تقریب جاری رہی اور لوگ مائیک پر آ کر پنج ریڈیو کے روشن دیئے میں اپنے افکار ڈال کر اسے ایک نئی روشنی میں ڈھال رہے تھے۔ اس شان دار سلسلے کے بعد تقریب نے اختتام کو چھوا تو اسٹیج پر بیٹھے لوگ اٹھ گئے، جنہیں تقریب میں آئے ہوئے باقی ماندہ لوگوں نے گھیر لیا، مگر نیلم احمد بشیر پروقار انداز میں چلتی ہوئی سیدھا میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئیں۔ یہ میرے لیے ایک بہت ہی خوش گوار اور بیش قیمت لمحہ تھا۔ ویسے تو میرے افسانوی مجموعہ ”سناٹوں کا شہر“ کے حوالے سے بطورِ افسانہ نویس ان سے میری جان پہچان ہو چکی تھی اور الماس شبی نے بھی مائیک پر میرا تعارف کرا دیا تھا۔ نیلم احمد بشیر کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ اپنی ملائمت اور خوش گفتاری کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں یوں گھل مل گئیں جیسے ہماری شناسائی برسوں پر محیط ہو۔ وہ مجھے تصنع اور بناوٹ سے کوسوں دور لگیں ۔ میرے لیے یقین کرنا آسان نہیں تھا کہ جن کے افسانوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا آج وہی ہستی میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں۔ لاہور آتے ہوئے فنون کے تازہ شمارے میں چھپا ان کا خوب صورت افسانہ ”کل یگ“ میں راستے میں ہی پڑھ چکا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور ان کے افسانے پر بات شروع کر دی، جن کے مختلف پہلوؤں پر گفت گو ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ اپنے قاری کی رائے کو کافی اہمیت دیتی ہیں۔ ان کی بے ساختہ اور سادہ طبیعت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہماری بات چیت جاری تھی کہ اس دوران ایک نوجوان ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔

\"\"

”منیر، ان سے ملو، یہ ہیں پنجابی کے بہت اچھے شاعر اور ایف ایم 103 کے کمپیئر افضل ساحر۔“ نیلم نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے افضل ساحر کی طرف مسکراہٹ اچھالتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا، جواباً وہ بھی ساحرانہ انداز میں مسکرا دیئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ واقعی ساحر ہیں۔ بلا کے باتونی اور بذلہ سنج افضل اپنی دل چسپ باتوں کے باعث چند ہی لمحوں میں اتنے بے تکلف ہو گئے کہ مجھے محسوس ہوا ہم سالوں سے ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ گپ شپ کا دور شروع ہوا اور ہم تینوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کے کھلتے موسم یوں اتر نے لگے جیسے انہیں ہماری ہی تلاش ہو۔ اسی گپ شپ کے دوران نیلم احمد بشیر نے افضل ساحر سے پنجابی کلام سنانے کی فرمائش کی اور جواب میں انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے اپنی خوب صورت نظمیں سنادیں۔ واقعی وہ ایک لاجواب شاعر ہیں۔ ان کی نظموں اور دل کش انداز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے بھی تعریف کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا۔
”منیر، کیا تم نے نیلم کا ”خوشیا“ پڑھا ہے؟“ اچانک ساحر نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے نفی میں گردن ہلائی۔ ”آئے ہائے۔۔۔ کیا ہی خوب صورت خاکہ ہے یار۔ اگر وہ نہیں پڑھا تو پھر تم نے نیلم کو پڑھا ہی نہیں ۔“ ساحر نے کہا اور میں نیلم احمد بشیر کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔ وہ مسکراتے ہوئے میری طرف یوں دیکھنے لگیں جیسے میرے چہرے پر ہونے والی حیرت کی بارش سے محظوظ ہو رہی ہوں۔
”ارے تم نے میری خاکوں کی کتاب چار چاند نہیں پڑھی؟“ نیلم نے الٹا مجھ پر سوال انڈیل دیا۔
”مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ آپ نے خاکے بھی لکھے ہیں۔“ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔
”اچھا چلو ۔۔۔ تمہیں کتاب بھیج دوں گی۔ \’خوشیا\’ اسی کتاب میں ہے۔ \” نیلم احمد بشیر نے بے نیازی سے کہا۔
”کیا ظالم خاکہ ہے بھئی۔۔۔ قسم سے جواب نہیں نیلم تمہارا۔“ افضل کی بات نے میری دل چسپی اور پیاس مزید بڑھا دی۔
”اب آپ نے مجھے کتاب لازمی بھیجنی ہے۔ میں انتظار کروں گا۔“ میں نے نیلم سے تاکید کرتے ہوئے کہا۔
”ہائے ہائے ۔۔۔ ایک کاپی گھر میں پڑی ہوئی تھی، مجھے پتا ہوتا تو میں ساتھ لاتی۔ چلو خیر میں آپ کو بھیج دوں گی۔“ نیلم نے بدستور اپنے مخصوص اندازِ بے نیازی میں کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد پھر سے ہماری گپ شپ شروع ہو گئی اور کھلکھلاتی ہوئی یہ دل کش محفل بہت دیر تک جمی رہی۔

\"\"

دوسرے دن میری واپسی تھی اور میں خوب صورت یادوں کی بارات کے ساتھ لاہور سے رخصت ہو گیا۔ گھر پہنچتے ہی مجھے چار چاند کے انتظار نے گھیر لیا۔ نیلم احمد بشیر میری توقعات سے کہیں زیادہ فعال ثابت ہوئی تھیں۔ کیوں کہ اگلے ہی روز انہوں نے میسج کر کے میرا پوسٹل ایڈریس مانگ لیا اورٹھیک دو دن بعد جب میں دفتر سے گھر لوٹا تو ایک پیکٹ میرا منتظر تھا۔ اسے بے چینی سے کھولا تو اندر سے دو کتابیں میرے ہاتھوں کے لمس کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک نیلم احمد بشیر کی ”چار چاند“ اور دوسری ان کے ابا احمد بشیر کی کتاب تھی ”جو ملے تھے راستے میں“
میں نے فوراً ”چار چاند“ کھولی اور فہرست پر نظریں دوڑائیں ۔ ”خوشیا“ کے عنوان سے خاکہ صفحہ نمبر 42 پر موجود تھا۔ جھٹ پٹ مطلوبہ صفحہ نکالا اور ”خوشیا“ کا مطالعہ شروع کر دیا۔ دوسری سطر پر افتخار نسیم کا نام پڑھتے ہی میں چونک اٹھا اور میرا گمان کہنے لگا کہ یہ خاکہ ضرور افتخار نسیم افتی کے بارے میں ہے۔ اس وقت تک میں لاعلم تھا کہ ”خوشیا“ کس پر لکھا گیا ہے۔ جوں جوں میں آگے پڑھتا گیا میرا گمان یقین میں بدلتا گیا۔ وہ خاکہ واقعی افتخارنسیم کے بارے میں ہی تھا۔
افتخار نسیم افتی کا نام میرے لیے ہرگز نیا نہیں تھا۔ جب میں نوآموز تھا تو اس وقت اوراق اور فنون جیسے مؤقر ادبی جرائد پڑھنے کا موقع ملا، جن میں افتخار نسیم افتی کی تصویریں اور کلام باقاعدگی سے چھپا کرتا تھا۔ انہی دنوں جب مجھے اس کی شخصیت کے ایک خاص پہلو کا پتا چلا تھا تو افتخار نسیم افتی نے ہمیشہ کے لیے میری توجہ حاصل کر لی تھی۔ بس تب سے اس کا نام میرے دل و دماغ میں کندہ ہو گیا تھا۔
مگر اصل افتخار نسیم افتی تو مجھے ”خوشیا“ میں ملا۔ وہ خاکہ تھا کہ حیرت بھرے جہانوں کی روداد تھی۔ میں جیسے جیسے پڑھتا گیا، اپنے اندر سے ہجرت کر کے ”خوشیا“ میں اترتا گیا۔ نیلم احمد بشیر کی ان سے پہلی ملاقات تو بس ایک دروازہ تھا اس کی شخصیت میں داخل ہونے کا۔ اس کے بعد نیلم احمد بشیر کے جادوئی قلم نے خوشیا کے روپ میں افتخار نسیم افتی کے اندر کی حیران کن دنیا کے چپے چپے میں جس طرح مجھے گھمایا ، شاید خود افتخار بھی اپنا اندر اس انداز میں نہ دکھا پاتا۔ خاص طور پر خوشیا کے یہ جملے میرے لیے بھی اتنے ہی بم ناک ثابت ہوئے تھے جتنے خود نیلم کے لیے۔ ان کی پہلی ملاقات کے چند جملے ملاحظہ کیجئے:
”گھر پہ آپ کی بیگم، بچے وغیرہ ؟“ میں نے جنرل سا سوال کیا ۔اس وقت تک میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہیں ؟ کیا ہیں؟ شادی شدہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔
”میری کوئی بیگم نہیں۔ البتہ ایک لائف پارٹنر ضرور ہے۔ دراصل میں \’گے\’ ہوں۔“ افتخار نسیم نے بڑے سرسری انداز میں جواب دیا اور مجھے یوں لگا جیسے دو تین بم اکٹھے میرے سر پر آ گرے ہوں۔

یہ جملے پڑھ کر بم مجھ پر بھی آ گرے تھے اور میری حالت بھی وہی تھی جو نیلم کی تھی۔ اس کے بعد تو ”خوشیا“ بس ایک حیرت کدہ ثابت ہوااور مجھے اتنی حیرتوں سے گزرنا پڑا کہ میرے لیے سنبھلنا مشکل ہو گیا مگر نیلم کو کب کسی کی پروا تھی وہ تو قاری کی نفسیات پر وار ہی کیے جا رہی تھیں۔ دنیا اس افتخار کو جانتی ہی نہیں تھی جو خوشیا کے روپ میں نیلم احمد بشیر سامنے لے آئی تھیں۔ افتی کے دوست، اس کا گھر، اس کے گھر میں ہونے والی پارٹیاں اور دوستوں کا آپس میں ملنا جلنا، یہ سب کچھ بہت انوکھا اور عجیب و غریب تھا۔
ایک بہت مشہور جاپانی کہاوت ہے کہ ہر انسان کے تین چہرے ہوتے ہیں۔ پہلا وہ دنیا کو دکھاتا ہے، دوسرا وہ جو دوستوں اور خاندان کے لوگوں کو دکھاتا ہے۔ تیسرا چہرہ جو وہ کسی کو نہیں دکھاتا اور وہی اس کا اصل چہرہ ہوتا ہے۔ ”خوشیا“ پڑھنے کے بعد مجھے یہی لگا کہ نیلم احمد بشیرکی نظر افتخار کے تیسرے چہرے پر ہی جاپڑی تھی اور اپنے کمال اسلوب سے وہ افتی کا تیسرا چہرہ دنیا کے سامنے لائی ہیں اور ببانگِ دہل لائی ہیں۔ نیلم احمد بشیر کے قلم کی فسوں کاری اور افتخار نسیم افتی کی شخصیت کے پوشیدہ گوشے قاری کو سرشاری کی کیفیات میں لے جاتے ہیں ، جو حقیقت میں افتخار سے افتی تک کا سفر ہے اور افتی تک پہنچتے پہنچتے وہ دلوں پر قبضہ کر چکا ہوتا ہے۔

کتاب کا ٹائٹل خاکہ ”چارچاند“ اس کتاب کا حاصل خاکہ ہے، جو چار بہنوں نیلم احمد بشیر، سنبل، بشریٰ انصاری اور اسماء کے گرد گھومتا ہے۔ نیلم احمد بشیر نے چار چاند کے پسِ پردہ احمد بشیر جیسے نڈر صحافی، ناولسٹ اور کالم نگار کی وہ چمکتی کائنات دکھائی ہے جسے ان چار چاندوں نے اپنی کرنوں سے منور کر رکھا تھا۔ نیلم احمد بشیر نے اپنی اور بہنوں کی بچپن کی یادوں سے بھرپور ایسی خوب صورت تصویریں قاری کے سامنے رکھ دی ہیں کہ جس میں صرف اور صرف سچ کے بے شمار چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ احمد بشیر کے بے باک قلم کی کاٹ اور سچائی کا نورنیلم احمد بشیر کو ورثے میں ملا ہے، جس کی جھلک ”چار چاند“ میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ:
”احمد بشیر کے اپنے اصول اور آدرش تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی پہلی اولاد ایک سخت جان انسان بنے۔ نرم و نازک اور چھوئی موئی لڑکی بن کر نہ جیے۔“
ایک تخلیق کار کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اس وقت آتا ہے، جب اس کا سامنا خود اپنے ساتھ ہو جائے۔ بات اگرافسانے کی ہو تو تخلیق کار کے پاس کنی کترا کے بچ نکلنے کے کافی راستے ہوتے ہیں مگر خاکہ نگاری تو سنگِ مرمر کے گیلے فرش پر ننگے پاؤں چلنے کا فن ہے اور اوپر سے سچائیوں کا بڑا سا گٹھڑ بھی سر پر ہو تو اور بھی جوکھم اٹھانا پڑ جاتے ہیں۔ مگر نیلم احمد بشیر نے جس طرح اس مرحلے کو دیانت داری، سچائی اور کام یابی کے ساتھ طے کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ممتاز مفتی اور ابنِ انشاء جیسے بڑے ادیبوں کی ان کے گھر میں بیٹھکیں، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور چاروں بہنوں کا شرارتوں بھرا بچپن جہاں قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیردیتا ہے، وہاں اسے کہیں نہ کہیں دکھی بھی کر دیتا ہے۔ ”چار چاند“ پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ خاکہ نہیں بل کہ جذبات، روایات، اخلاقیات اور سماجی قدروں کی ایک ایسی خوب صورت دنیا ہے، جس میں اترنے کے بعد قاری کو واپسی کا راستہ سجھائی نہیں دیتا بل کہ قاری اس دنیا کا حصہ بن جاتا ہے۔

خاکہ نگاری کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ موضوع ِخاکہ شخصیت سے ذاتی سطح پر قربت ضروری ہے تاکہ وہ شخصیت کے اُن پہلوؤں کو بھی جانچ سکے جو ظاہری آنکھ سے پوشیدہ رہتے ہیں جس وجہ سے وہ شخص پردے کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔ ”چارچاند“ کی بشریٰ انصاری، سنبل اور اسماء بظاہر تو دنیائے شوبز کے جانے مانے نام ہیں مگر ”چار چاند“ میں وہ الگ ہی شخصیات کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ دنیا جن سے بے خبر ہے اور وہی ان کی اصل تصویریں ہیں، اصل روپ ہیں۔ خاص طور سے اسماء کی معروف اداکارہ روحی بانو کے ساتھ قربت، ان کی خدمت اور دیکھ بھال کا پہلو اتنا حیران کن ہے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ پردہِ سکرین پر چمکنے والی اسما پسِ پردہ اتنی ہم درد اور اتنی خیال رکھنے والی بھی ہوسکتی ہیں۔ ”چار چاند“ میں چار نہیں، کئی چاند چمک رہے ہیں۔ نیلم احمد بشیر کا یہ باکمال خاکہ پڑھنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خاکہ نگاری معلوم سے نامعلوم کا تخلیقی سفر ہے، جس میں ظاہری شخصیت کے اندرسے اس کی اصل شخصیت کو دریافت کرنا پڑتا ہے بل کہ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔

”ابا پیا“ خاکہ نیلم کا اپنے ابا احمد بشیر سے لازوال محبت کا ایک خوب صورت اظہاریہ ہے۔ ”ابا پیا“ ایک نڈر اور سچے صحافی کی حلال کی کمائی پرتشکیل دی جانے والی ایک چھوٹی سی نگری کا احوال ہے جو انہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود دن رات کی محنت سے آباد کر رکھی تھی۔ ایک ایسی نگری جہاں چار چار چاند بیک وقت چمکے، جنہوں نے اپنی روشنیوں سے مشکلات کے اندھیروں کو نگل لیا اور احمد بشیر کو وہ آسودگی دی جس کے لیے انہوں نے ساری عمر تگ و دو کی تھی۔
خاکہ نگار فن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ خاکہ نگاری کا مقصد شخصیت کے فنی مقام و مرتبہ کا تعین کرنا نہیں ہوتا بل کہ اُس کے اندر کے شخص کو اُس کے تمام افکار و اعمال کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے۔ ”ابا پیا“ خاکہ اس اصول کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ احمد بشیر کے ساتھ سب سے زیادہ وقت چوں کہ نیلم نے گزارا ہے، اس لیے انہوں نے اپنے ابا کے اس خاکے میں احمد بشیر کے تین روپ دکھائے ہیں۔ بطورِصحافی، خاوند اور باپ کے طور پر۔ تینوں روپ اتنے سچے اور کھرے ہیں کہ احمد بشیر جیسا بننے کی ایک امنگ سی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک جگہ وہ ان کے بارے میں لکھتی ہیں:
”ابا ہماری زندگیوں کے مرکز اور ہماری فیملی کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ہم سب میں اگر کسی ٹیلنٹ کی کوئی بھی پرجمال رنگین چنگاری نظر آتی ہے تو وہ انہی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے فنونِ لطیفہ کی قدر اور ہمیں زندگی میں برتنے کا ذوق بخشا جو زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ امی کو ایک سیدھی سادی گھریلو بیوی ہونے کے باوجود کلاسیکی موسیقی کی تعلیم دلوانا، بہن پروین کی تحریروں کو سراہنا اور مزید لکھنے کی تلقین کرنا، بشریٰ کے فن کی پذیرائی کرنا، بیٹیوں کو محاذِ زندگی پہ بہادری سے ڈتے رہنے کی تربیت کرنا انہی کا کام ہے۔ ابا نے ہمیں عورتیں سمجھ کر کم تر سمجھا نہ محکوم ورنہ جس معاشرے میں ہم سانس لیتی ہیں اس میں کوئی مائی کا لال عورت کو اس کی ہستی اور ٹیلنٹ کے اظہار کی اتنے آرام سے اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے ابا نے ہمیں غلطیاں کرنے اور پھر ان سے سیکھ کر زندگی کو بہ تر بنانے کا شعور دیا۔“

احمد بشیر کی اپنے بیٹے ہمایوں سے لازوال محبت کا دل گیر نقشہ نیلم نے اس انداز میں کھینچا ہے:
”ہمایوں کی روانگی کے روز ہم سب نے یہی بہ تر سمجھا کہ انہیں اس کے جانے کے بارے میں نہ بتایا جائے۔ ان کی ذہنی حالت تھی بھی ایسی کہ انہیں یہ بتا کر دھوکا دیا جا سکتا تھا کہ وہ زرا باہر گیا ہے، ابھی آ جائے گا مگر نہ جانے کون سی کالی چڑیا نے ابا کے کان میں یہ سرگوشی کر دی کہ آج آپ کا محبوب بیٹا آپ کو چھوڑ کر امریکا واپس جا رہا ہے۔ ابا نے صبح دل کڑا کر کے اس سے سوال کیا: \’آج تم کس روٹ سے واپس جا رہے ہو؟\’ ہم سب نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ \’ابا، میں یہیں ہوں۔ کہیں نہیں جا رہا۔\’ ہمایوں نے ٹالنا چاہا۔ ابا پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے۔ سبھی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ نیم بے ہوشی اور اذیت کے اس عالم میں بھی ابا حقیقت جان گئے تھے کہ بے چہرہ موت کالا چوغہ پہنے، ہاتھ میں بِس کا پیالہ تھامے سرہانے کھڑی ان کی طرف ٹکر ٹکر دیکھتی ہے اور انتظار کرتی ہے اور وقت گزار جاتا ہے۔\’دنیا نے مجھے مانا مگر میرے اپنے باپ اور بیٹے نے مجھے کبھی ایکسیپٹ نہیں کیا۔\’ ان کا لہجہ گلوگیر ہو گیا۔ ”ابا پیا“ خاکہ نیلم کی یادوں کا وہ خوب صورت نخلستان ہے جس میں وہ آج بھی رہ رہی ہیں۔

”ایورگرین ٹین ایجر“ ممتاز مفتی جیسے نام ور ادیب پر لکھا گیا ہے۔ نیلم اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہیں کہ ممتاز مفتی جیسے تخلیق کار کے سایہِ عاطفت میں ان کا بچپن گزرا۔ احمد بشیر اور ممتاز مفتی کی آپس میں اتنی گہری دوستی تھی کہ نیلم نے ہوش سنبھالا تو ممتاز مفتی کو اپنا فیملی ممبر ہی پایا، بل کہ نیلم خود اس بات کااعتراف کرتی ہیں کہ مجھے لکھنے کی طرف مائل کرنے والے ممتاز مفتی ہی تھے۔ ان کے گھر میں ممتاز مفتی کی عمل داری کے بارے میں ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ:
”امی، ابا کی شادی کے وقت حق مہر کے جھگڑے پر بارات کو واپس جانے سے روکنے کے کام سے لے کر اگلی نسلوں کے بچوں بچیوں کے نام تک رکھتے وقت ان سے یوں مشورہ مانگا جاتا ہے جیسے وہ ہمارے کوئی قبائلی سردار ہوں۔ کسی کی منگنی ٹوٹ رہی ہو یا کسی کا دل۔ کسی کے بچے ان کا کہا نہ مان رہے ہوں یا کسی کا دل لیڈری کرنے کو چاہ رہا ہو، کسی کا جسم فربہی کی طرف مائل ہو رہا یا کسی کے چہرے پر دانے نکل رہے ہوں، کسی کی کتاب چھپنے والی ہو یا کسی تحریر کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو۔ ہم سب اپنے اپنے دکھڑے، اپنی اپنی خوشیاں اور محرومیاں، اپنی کاوشیں لے جا کر مفتی صاحب کے قدموں میں ڈل دینے کو بے قرار، ان کے تھڑے پر جا بیٹھتے۔“

ممتاز مفتی کی شخصیت پر ”ایورگرین ٹین ایجر“ کا ٹیگ اتنا اسمِ بامسمیٰ ہے کہ نیلم احمد بشیر کی ذہانت کو داد دینے کو دل کرتا ہے، بلاشبہ افسانے کی طرح خاکہ نگاری میں بھی ان کا کام بہت متاثرکن ہے۔
”ٹپر واسنی“ ان کی معروف افسانہ نویس پھپھو عاطف پروین پر لکھا ہوا خاکہ ہے جب کہ ”سلمیٰ سلامت“ ان کی سفر نامہ نویس دوست سلمیٰ اعوان کی شخصیت کا پرتو ہے، جو الگ مزاج اور کیفیات میں گندھے ہوئے خوب صورت خاکے ہیں، جن میں طنزومزاح کا تڑکا بھی ہے اور نوک جھونک بھی ہے اور محبت کا بہتا ساگر بھی ہے۔ یہاں نیلم احمد بشیر کی پھپھو پروین عاطف کا ان ہی پر لکھا گیا ”ققنس“ کے نام سے شخصی دیباچہ کا ذکر نہ کرنا زیادتی کے مترادف ہو گا جو اپنے اندر ایک شاہ کار خاکے کا درجہ رکھتا ہے۔ پروین عاطف نے جس انداز میں نیلم احمد بشیر کو تجسیم کیا ہے وہ نیلم کی داخلی اور خارجی شخصیات کی بہت خوب صورت مخفی پرتیں ہیں، جن کے لفظ لفظ میں محبت، انس، رچاؤ، غم، دکھ سہتا ہوا قاری پتا نہیں جذبوں کے کتنے جزیروں میں گھوم پھر آتا ہے۔
اگر فنی حوالے سے نیلم احمد بشیر کے خاکوں کی بات کی جائے تو میری نظر میں یہ خاکے اتنے مضبوط اور مکمل ہیں کہ خاکہ نگاری کے فن کے حوالے سے ان کے خاکے مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ چوں کہ نقادوں نے فنی حوالے سے یہ خوبی گنوائی ہے کہ خاکے میں شخصیت کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں کی تصویر کشی کی جائے ورنہ صرف اچھائیوں پر بات کرنے سے پیش کردہ قلمی تصویر یک رخی قرار پائے گی، اس لئے خاکہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخصیت کو اس کی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیش کرے اور یہی وصف نیلم احمد بشیر کے خاکوں پر مکمل طور پر غالب آتا ہے، جس سے ان کی قلمی بے باکی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ میری نظر میں ان کے خاکے سراپا نگاری کی عمدہ مثال قرار دیئے جا سکتے ہیں اور خود انہیں سراپا نگار کے منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے۔

چوں کہ خاکے کا انحصار ماضی کے جزیروں سے ہوتا ہے جہاں یادوں کے بکھرے سیپ چن کر خاکے میں سجانے پڑتے ہیں، جس میں خاکہ نگار اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہیں کر سکتا، اس لیے میری نظر میں کسی بھی شخصیت پر خاکہ لکھنا تواریخ مرتب کر نے کے برابر ہوتا ہے اور تواریخ ہمیشہ دو جمع دو چار ہی ہوتی ہے، جب کہ نیلم نے بھی دو جمع دو پانچ کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی اور جس پر بھی لکھا ہے بغیر کسی لگی لپٹی کے مکمل دیانت داری کے ساتھ اس کی خوبیوں خامیوں کو موضوع کیا، نہ کہیں مبالغہ آرائی سے کام لیا اور نہ ہی فتنہ انگیز سچائی سے ۔۔۔ مگر یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے،اس لیے قرینِ قیاس ہے کہ انہیں ضرور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا، کچھ ناراضیاں بھی ان کے دامن میں آ گری ہوں گی مگرحقیقت کچھ بھی ہو، نڈر احمد بشیر کی تربیت یافتہ بیٹی نیلم احمد بشیر نے خاکہ نگاری میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں اور انہوں نے خاکہ نگاری سے سراپا نگاری تک کا سفر خوب صورتی کے ساتھ طے کیا ہے۔
وہ بلاشبہ ایک منجھی ہوئی قلم کار ہیں اور پھر احمد بشیر، ممتاز مفتی اور ابنِ انشا جیسے ادیبوں کی تربیت یافتہ ہیں توا سلوب کی سطح پر ان کی نثر کا نکھار اور جملوں کی تراش اتنی اعلیٰ اور تخلیقی نوعیت کی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ایک ماہر مصور کی طرح رنگ رنگ کے لفظوں کے ڈھیر اپنے سامنے سجا کر انہیں موضوعِ خاکہ شخصیات پر فٹ کر کے لفظوں سے ان کی ایسی خوب صورت زندہ تصویریں بنائی ہیں کہ جو قاری کے ساتھ باتیں کرتی ہیں، انہیں ہنساتی ہیں، رلاتی ہیں، ان کے آنسو پونچھتی ہیں اور انہیں گدگداتی ہیں۔بل کہ میرا تو یہ کہنا ہے کہ اگر افتخار نسیم افتی، احمد بشیر، ممتاز مفتی، نیلم احمد بشیر، بشری ٰ انصاری، سنبل، اسماء وغیرہ سے ملنا مقصود ہو تو ان کی ”چارچاند“ پڑھ لی جائے۔
یہ کتاب سنگِ میل پبلشرز، لاہور سے شائع ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments