مرتضی اور عطا آباد جھیل


مرتضی ٰ ایک سمارٹ ذرا دبلا پتلا انسان ہے۔ وہ ہنزہ، نگر اور شاہراہ ریشم پر سیاحوں کی خدمت کرتا ہے۔ مخلص، جیسا کہ وادی کے دیگر لوگ ہوتے ہیں، محنتی، ایماندار اور خدمت گزار ڈرائیور ہے۔ وہ جیپ چلاتا ہے۔ عطا آباد جھیل کو کراس کرتے ہوئے جب میں نے اسے ایک عمومی سوال کیا ”عطا آباد کے متاثرین کو حکومت نے کوئی امداد دی“ ؟

جواب دینے میں مرتضی ٰ پہلے تو ہچکچایا، میرے سوال دہرانے پر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ وہ جذباتی سے لہجے میں بولا ”میں خود عطا آباد کے متاثرین میں ہوں۔ شکر ہے میرے بچے اور میں خود محفوظ رہے مگر ہمارا گھر بلکہ ہمارا گاؤں اس خونی جھیل نے اپنی خون آشام لہروں میں لپیٹ لیا۔ ہم سب گاؤں والے اس آفت کا شکار ہوئے۔ اور کئی سال بے یارو مددگار رہے۔ پانچ سال کے بعد حکومت نے ہمیں آٹھ لاکھ روپے دیے ہیں۔ ان پیسوں میں گلگت میں ایک مرلہ زمین بھی مل جائے تو غنیمت ہے“ ۔ میں جب بھی کوئی سیاح ادھر لے کر آتا ہوں مجھے اپنا گھر اور گاؤں بہت یاد آتے ہیں۔

مرتضی یہ باتیں جذباتی انداز میں بتا رہا تھا۔ ہم جھیل کے ساتھ شاہراہ ریشم پر بنی ایک نئی سرنگ سے گزر رہے تھے۔ یہ سرنگ کوئی سات کلومیٹر لمبی ہے اور اس سڑک پر بننے والی سب سے لمبی سرنگ ہے۔ یہ سرنگ شاہراہ ریشم پر ایک خوبصورت تعمیراتی اضافہ ہے۔

عطا آباد جھیل۔ ایک لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ درجنوں انسانی جانیں اس کی تہ کی نذر ہوئیں اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہوئے۔ 24 کلو میٹر لمبی یہ جھیل پانچ سال تک پاکستان اور چین کی زمینی راہ کو روکے کھڑی رہی جہاں مال تجارت کشتیوں کے ذریعے آر پار ہوتا رہا۔ آج یہ جھیل پاکستان کا سب سے بڑا ٹورسٹ سپاٹ بن چکا۔ یہاں چھابڑی والے چنوں سے لے کر پیزا تک کھانے کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ پانی کی تمام تفریحات جیٹ سکائی انگ سے موٹر بوٹ تک تفریح مہیا کر رہی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کا روز گار اب اس جھیل سے وابستہ ہو چکا۔ بے شمار ٹورسٹ یہ جھیل دیکھنے اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔

ہم مرتضی ٰ کی کھلی جیپ میں شاہراہ ریشم پر سفر کر رہے تھے۔ موسم ابر آلود تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے کھانے کو آج ہم اپنی گاڑی ہوٹل کھڑی کر آئے تھے۔ ہمارا آج کا ٹور خنجراب پاس جانے کا تھا جو کریم آباد سے ایک سو اسی کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان اور چائنا کا بارڈر ہے۔

شاہراہ ریشم پر چائنا جاتے ہوئے ”سوست“ آخری ہنستا کھیلتا مہمانوں کی تواضع کا مکمل سامان لئے بازار یا گاؤں ہے۔ کبھی یہ بازار چائنا سے برآمد مال سے بھرا ہوتا تھا مگر کرونا کی وجہ سے چائنا بارڈر مکمل طور پر بند ہے۔ سوست اب سیاحوں کی تفریح اور کھانے پینے، دوا دارو اور بنک کا آخری شہر ہے۔ سوست سے آگے خنجراب تک نوے کلومیٹر سڑک کالے پہاڑوں اور کہیں کہیں مقامی یاک کے ریوڑوں کے سوا ویران، شیطان کی آنت لگتی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

سوست سے کوئی بیس پچیس کلو میٹر آگے جیپ کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ مرتضی ٰ نے نہایت مستعدی سے ٹائر تبدیل کیا۔ میرے سوال ”قریب کوئی پنکچر لگانے والی دکان ہے؟“ کے جواب میں مرتضی ٰ کے چہرے پر آئی مایوسی ہی اس سوال کا جواب تھی۔ ساٹھ کلو میٹر آگے اور نوے کلومیٹر واپس سوست تک کوئی پنکچر لگانے کی دکان نہیں تھی۔ آیت الکرسی کا سہارا لیتے رہے اور سفر کرتے رہے۔ زندگی کے سفر بھی سہاروں بنا طے کرنا شاہراہ ریشم پر بغیر سٹپنی سفر کے مترادف ہوتا ہے، اس بات کا اندازہ ہمیں جیپ پر بغیر سٹپنی سفر کرتے ہوئے ہو گیا۔ قراقرم ہائی وے کوئی تیرہ سو کلو میٹر لمبی ہے اور اس کی تعمیر بیس سال میں مکمل ہوئی تھی۔ تعمیر کو ایک ہزار مزدوروں نے جان کا نذرانہ دیا تھا۔ اب یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتی ہے۔

خنجراب پاس کوئی پندرہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر نسبتاً چوڑا درہ ہے جو قدیمی طور پر چین کو پاکستان سے ملاتا ہے۔ دھوپ نکل آئے تو بہت تیز اور برفیلی چوٹیوں سے منعکس ہو رہی ہوتی ہے جو بینائی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ یہاں تھوڑا تیز چلنے سے سانس پھولنے لگتا ہے۔ چاروں اطراف برف پوش چوٹیوں کے درمیان یہ درہ انتہائی خوبصورت لینڈ سکیپ کا حامل ہے۔ یہاں پاکستان امیگریشن کے دفاتر موجود ہیں جو سامان تجارت کی ترسیل پر لاگو ٹیکس وصولی اور سمگلنگ کی روک تھام کے لئے بنائے گئے ہیں۔ یہاں دنیا کی سب سے بلند اے ٹی ایم لگی ہوئی ہے۔ اتفاق سے وہ اے ٹی ایم خراب تھی۔ ہم دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم مشین سے دنیا کے بلند ترین پاکستانی کرنسی نوٹ نکالنے کی سعادت سے محروم رہے۔

شام ڈھلنے لگی تھی جب ہم خنجراب پاس کو سر کر کے واپس عطا آباد جھیل کے ٹورسٹ سپاٹ تک پہنچے۔ یہاں بنے خوبصورت فلیٹ دیکھ کر چھوٹو نے حسرت سے کہا ”بابا ہم آج کی رات یہاں فلیٹ نہیں لے سکتے“ جواب کا چھوٹو کو خود علم تھا۔ وہ نیٹ پر بکنگ دیکھ چکی تھی۔ یہاں رش بہت تھا۔ ہم نے مرتضی ٰ اور جیپ کو چھوڑا اور جھیل کو چل پڑے۔ پہلے پہل ہم نے ایک کشتی ”موٹر بوٹ“ بک کی اور جھیل کی سیر کو نکل گئے۔ بعد ازاں بچے جیٹ سکائانگ کرتے رہے جبکہ وقت گزاری کے لئے ہم نے پیزے اور چائے کا سہارا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments