ہماری برداشت ختم ہو گئی ہے، یا ہم میں بہت برداشت آگئی ہے


اسلام آباد اور حیدرآباد کے شرمناک اور روحوں کو جھنجھوڑ دینے والے عبرت ناک واقعات اور ان کی شدت اور اس شدت کے حوالے سے جنم لینے والے سوالات ابھی بھی منطقی جواب کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

رحیم یار خان سے انسان دوستی، رواداری اور بھائی چارے کی دھجیاں اڑاتی خبر، اپنی پوری المناکی اور دل سوزی کے ساتھ سوچنے والے ذہنوں کو حصار میں لئے ہوئے ہے۔

اور اب،

پنج گور سے دل دہلانے والی اور ہمارے معاشرے کو انسانیت کے درجے سے گرا دینے والی ایک اور روح فرسا اطلاع ہمارے سامنے ہے اور ایک معصوم روح سے آنکھ چرانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود، یہ خبر آنکھوں کو نم کیے بغیر، رہنے والی نہیں۔

ملک بھر میں جنم لینے والے، یہ اور اس جیسے اندوہناک اور شرمناک واقعات ہماری روزمرہ زندگی کا یوں حصہ بنتے جا رہے ہیں جیسے، ایسا ہونا کوئی غیر معمولی، تشویشناک یا فکر انگیز مرحلہ نہ ہو بلکہ یہ ہمارے روز کے معمولات میں شامل ہو۔

اس صورت حال اور ہمارے اس طرزعمل سے ان دو باتوں میں سے کم از کم ایک بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ یا تو ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم تنزلی کی اس سطح پر آچکے ہیں جہاں اختلاف رائے ( اور مکالمے ) کی اب ہمارے درمیان کوئی گنجائش نہیں اور ہماری قوت برداشت نے یکسر جواب دے دیا ہے۔

یا اس قسم کے واقعات کا تواتر سے ہونا اور اس پر ہماری نہ ختم ہونے والی بے حسی اور تماشائی جیسی لاتعلقی، یہ ثابت کرتی ہے کہ اب ہم ذلت کی اس کھائی میں گر چکے ہیں جہاں ہم، ایسے انسانیت سوز واقعات کو بار بار دیکھنے، سننے، جاننے اور پھر انھیں برداشت کرنے کے اس طرح عادی ہو چکے ہیں جیسے یہ اور اس سے ملتے جلتے واقعات، ہماری زندگی کے عام رویوں کے خاص مظاہر ہوں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا معاشرہ، بد قسمتی سے، اس وقت برائی کی ان دونوں اطراف میں سرخرو ہے اور اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس ”امتیاز“ پر کسی بھی حلقے کو پشیمانی نہیں، وگرنہ اچھے فیصلوں ( اور بروقت پیش بندی ) کے اثرات کب تک اور کہاں تک پوشیدہ رہ سکتے ہیں۔

تمام پرانے واقعات، خبر کی حدود سے نکل کر، تاریخ کا حصہ بنتے ہوئے، فیصلہ سازوں کے مصمم ارادوں اور ظلم اور نا انصافی کی بیخ کنی کے دعووں کے ساتھ اپنے مروجہ غیر منطقی ( اور پراسرار ) ، انجام کو پہنچ جاتے ہیں، شاید انھیں بھی یہ علم ( اور یقین ) ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں کے سانحات کے لئے انھوں نے جگہ خالی کرنی ہے، اور شاید وہ، اس بات سے بھی با خبر ہوتے ہیں کہ آئندہ کے ان سانحات کا مقدر بھی ان سے کچھ الگ ( اور بہتر) نہیں ہوگا۔

متاثرین کی بے بسی سے، متعلقین کی بے حسی، اس داستان، اور ان جیسے وحشیانہ واقعات کے ختم نہ ہونے کی بنیادی وجوہات کا نمایاں سبب دکھائی دیتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ہر دوسرے تیسرے روز ابھرنے والے یہ سوالات، ہماری نظروں ( اور توجہ ) سے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے، چارسو، بے حسی کی تہہ دن بہ دن دبیز کیوں ہوتی جا رہی ہے، یہ بے حسی، ( نان نہاد ) انسانوں کی اس بستی میں رہنے والوں کے کن رجحانات کی علامت ہے، اس بے حسی کی افزائش کے آخر کیا عوامل ہیں ( اور ان عوامل کو سمجھنے کی راہ میں کیا رکاوٹ حائل ہے ) بے حسی کی یہ فضا، اس قدر گہری اور شدید کیوں ہے کہ ہر نئے سانحے پر فوری، سرسری اور سطحی اظہار کے بعد ، یہ پھر اسی کیفیت میں واپس آجاتی ہے۔

کہاں ہیں وہ ماہرین سماجیات، بشریات اور نفسیات جو عصر حاضر کے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں اور اس کے، اطوار، رفتار اور کردار کو اپنی ذہانت، لیاقت اور مہارت سے پلک جھپکتے جانچ لیا کرتے ہیں۔

ہمارے یہ معالج، کیوں اس گھناؤنی بیماری کی تشخیص کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جو غیر محسوس طریقے سے متعدی ہوتی نظر آ رہی ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاشرے میں سب نے اپنی دیواریں اونچی کر کے خود کو انفرادی طمانیت کے پنجرے میں قید کر لیا ہے اور پھڑپھڑاتا معاشرہ کسی مسیحا کے انتظار میں سانسیں گن رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments