زندگی کا ٹوٹا ہوا پل (خط # 11)


محترم ڈاکٹر خالد سہیل!

آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مغربی خواتین کی معاشی خودمختاری اور لائف اسٹائل کے حوالے سے میری بھرپور رہنمائی فرمائی۔ سوشیالوجی کی اسٹوڈنٹ ہونے کے ناتے میں ’گلاس سیلنگ ”کے کونسپٹ سے واقف ہوں کہ کس طرح بظاہر دکھنے والی مرد و عورت کی مکمل برابری کے اندر بھی بہت سی رکاوٹیں اور استحصال کی چھپی قسمیں حائل ہوتی رہتی ہیں۔ غالباً مغربی خواتین کی ترقی و آزادی کا بھی یہی عالم ہے۔ بظاہر مرد اور عورت ایک جیسے حقوق حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ان ایک جیسے حقوق میں بھی کچھ تفریق ہوتی ہے جو غور کرنے پر سمجھ میں آتی ہے۔

مرد و خواتین کی ایک ہی کام کرنے پر تنخواہوں میں فرق اور سینئر رتبوں پر زیادہ تر مردوں کو فوقیت دیے جانا۔ یہ اس طرح کے مسائل ہیں جو آج بھی مغربی عورتوں کو درپیش ہیں۔ مغربی عورتیں بہت سے میدانوں میں اپنے آپ کو منوا چکی ہیں اور مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے بھی رواں دواں ہیں۔ پاکستان میں 2017 اور 2018 کی عورت مارچ سے فیمن ازم ایسی بحث بن گیا ہے کہ یہ بحث آج بھی جاری ہے۔ عورتوں کی برابری کا خوش آئند جراثیم پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ میں پچھلے تین سالوں سے عورتوں کے حقوق پر لکھ رہی ہوں ابتدا میں اعتراض کرنے والے بہت لوگ تھے اب میں آہستہ آہستہ لوگوں کو عورتوں کی خودمختاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے لیکن تبدیلی کی اسپیڈ شاید کچھ سست ہے۔ اسے تیز ہونا ہو گا!

آپ نے پچھلے خط میں مجھ سے مشرق میں مرد و خواتین کی دوستی کے متعلق دریافت کیا تھا کہ یہاں پر اس دوستی کو کیا مقام حاصل ہے۔

سر۔ ہمارے ہاں ایک جملہ بہت عام ہے کہ
”مرد اور عورت کبھی دوست نہیں ہو سکتے“ ۔

یہاں مرد اور عورت لفظ ایک ساتھ لکھ بھی دیے جائیں تو لوگ اس جملے کو بھی sexualize کر دیتے ہیں۔ عورت ایک چیز کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور مرد خریدار کے طور پر۔ سو لوگوں کے نزدیک عورت اور مرد کا بات کرنا ملنا جلنا صرف ایک چیز اور خریدار کے تعلق جیسا ہے۔ ان کے نزدیک coeducation سے معاشرے کی تمام برائیاں جنم لیتی ہیں کیونکہ وہاں لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں اور جیسے بچپن سے میلوں دور رکھ رکھ کر ان کو پالا پوسا گیا ہوتا ہے وہ پریکٹس coeducation کی وجہ سے ہو نہیں پا رہی ہوتی سو ایسی تعلیم ہماری ’عظیم‘ ثقافت کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس سارے منظر کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ زندگی کے پل کی ایک طرف مرد کھڑے ہیں اور دوسری طرف عورتیں۔ یہ پل طویل ہے کہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دور دور سے دیکھ پا رہے ہیں مگر سن نہیں پا رہے۔ چونکہ مکالمہ نہیں ہے سو پل درمیان سے ٹوٹا ہوا ہے اور مرد و خواتین دور دور سے آوازیں لگا لگا کر اپنے اپنے کام کی باتیں کر رہے ہیں۔

فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بات کرتے کچھ ہیں اور پہنچ کسی اور طرح جاتی ہے۔ اس سے دونوں فریقین پریشان ہیں لیکن اگر کوئی آگے بڑھے اور یہ کہے کہ ہمیں زندگی کے پل کو جوڑنا ہوگا اور مکالمے کو فروغ دینا ہوگا تو اسے جلدی سے بے حیا ہونے کا میڈل پہنا دیا جاتا ہے اور وہی مرد و خواتین جو خود ٹوٹے پل سے پریشان ہیں وہی اس میڈل ملنے کی رسم پر تالیاں بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔

جب میں یونیورسٹی میں آئی تو ہمارے پہلے سیمسٹر میں اسائنمنٹ کے لئے میڈم نے ہمیں آٹھ آٹھ بچوں کے گروپس بنانے کا کہا۔ ہمارے گروپ میں سب لڑکیوں کے ساتھ اسائنمنٹ کرنے کے لئے ایک لڑکا بھی تھا۔ وہ ہمارے ٹاپک پر ڈسکشن میں بہت کم حصہ لیتا اور سر نیچے کر کے بیٹھا رہتا۔ حالانکہ بات صرف اسائنمنٹ بنانے کی ہوا کرتی تھی۔ وہ ہر بات میں اپنی پارسائی بھی جتلا دیتا تھا کہ وہ بڑا ڈیسنٹ ہے اور لڑکیوں کو دیکھتا ہی نہیں۔ اس سے ملتے جلتے ڈائیلاگ وہ بولتا رہتا تھا۔

مجھے اس کا ایٹیچیوڈ منفرد لگتا تھا اور میں سوچتی تھی کہ بھلا اسائنمنٹ پر بحث کرنے میں اور بطور اسٹوڈنٹ ایک ساتھ ڈھنگ سے کام کرنے سے کوئی ڈیسنٹ ہونے کے دائرے سے باہر نکل جانے کا خوف کیوں رکھتا ہے؟ جو اپنی گروپ فیلوز (گروپ بھی وہ جو تحقیق کے لئے بنا ہو) کو فیلو اسٹوڈنٹ نہیں بلکہ کسی افیئر کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہو اور اس وجہ سے اپنا منہ تعلیمی بحث کے وقت بھی بند ہی رکھ کر خود کو اپنے آپ پارسائی کا میڈل پہناتا جائے۔ وہ بھلا کہاں کا ڈیسنٹ ہوا؟

ہمارے ہاں مرد اور عورت میں تعلیمی اور انٹلیکچوئل مکالمے کا فقدان ہے۔ اس وجہ سے مرد و خواتین آپس میں اپنے مسائل سلجھانے سے قاصر ہیں۔ چونکہ یہاں لوگ hyper sexuality disorder کے مریض معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہی عینک سے تمام معاملات طے کرتے ہیں سو وہ مرد اور عورت کو کبھی کسی صحت مند مکالمے میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انھیں ہر چیز کو دائرہ بے حیائی کی زینت بنانے کا بہت شوق ہے۔ مرد اور عورت میں ڈھنگ کے مکالمے کے ٹوٹے ہوئے پل کی وجہ سے پاکستان میں ابھرتی ہوئی خواتین کے حقوق کی تحریکیں بھی بہت متاثر ہوتی ہیں۔

مرد سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی آزادی مردوں کو غلام بنانے کے مترادف ہے۔ جہاں عورتیں احسن انداز میں یہ جنگ لڑ رہی ہیں وہیں استحصال سے تنگ آ کر فیمنسٹ خواتین کا ایک گروہ مردوں سے شدید نفرت کے جذبات بھی رکھتا ہے۔ مرد لفظ فیمن ازم سنتے ہیں تو فقط اسی گروہ سے اس کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ سب غلط فہمیاں بھی ٹوٹے ہوئے پل کی وجہ سے ہی ہیں۔

میں یہ سمجھتی ہوں کہ پدرشاہی نظام نہ صرف عورتوں پر ظلم و ستم کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ مردوں کا بھی استحصال کرتا ہے۔ یہ مردوں سے ان کا انسان ہونا چھین کر کھوکھلی مضبوطی اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ مرد و عورت کے بہت سے مسائل سانجھے ہیں اور بہت سے مسائل اپنے اپنے بھی ہیں۔ اگر ان میں صحت مند مکالمے کو فروغ دیا جائے تو ہم ایک inclusive معاشرے کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس سے بالکل برعکس حالات ہیں۔ مرد اور عورت کو جینڈر کے اتنے پکے ڈبوں میں بند کر دیا گیا ہے کہ جینڈر رہتی جا رہی ہے اور انسان مرتا جا رہا ہے۔

سر۔ مشرق میں جہاں خواتین اپنے حقوق کے لئے تحریکوں میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں وہیں مردوں کی اکثریت ان کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ بہت سی خواتین اب نہ صرف اس پدرشاہی نظام سے باغی ہوتی جا رہی ہیں بلکہ مردوں سے شدید نفرت بھی ان میں پنپ رہی ہے۔ وہ بارہا اس نفرت کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ فیمنزم کے مخالف مرد۔ خواتین کی اس نفرت کو اپنی ڈھال بناتے ہیں اور عورتوں کی تحریکوں کو عورتوں کے ہی نعروں سے دبانے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔ کیا مغرب میں اٹھتی عورتوں کی آزادی کی تحریکوں کے دوران بھی مرد و عورت کی یہ نفرت بہت بڑھ گئی تھی؟ اس پر کیسے قابو پایا گیا اور کس طرح سے ان نفرتوں کو مکالمے کی طرف موڑا گیا؟

آپ کے جواب کی منتظر
مقدس مجید

اس سیریز کے دیگر حصےTRIBIDOسے LIBIDO کا سفر (خط # 8)مغربی معاشرے کی مختلف سماجی و سیاسی تحریکیں (12)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments