می لارڈ! یہ بچی چڑیل ہے


سترہویں صدی میں سپین کے ایک گاؤں یانکی میں ایک بارہ سال کی لڑکی اس وقت کی مذہبی عدالت انکویزن کورٹ میں پیش ہوئی۔ اس بچی کا نام اربیکا تھا۔ اس بارہ سال کی بچی نے اس عدالت میں یہ بیان دیا کہ ایک خاتون انہیں دوسری عورتوں کے ساتھ ایک خفیہ میٹنگ میں لے کر گئی۔ اور اس اجلاس میں ان سب عورتوں اور اس بچی کی ملاقات شیطان سے کرائی گئی۔ اس بچی کو اس شیطان کا حلیہ بھی بخوبی یاد تھا۔ اس نے بیان دیا کہ شیطان کے تین سینگ اور ایک دم بھی تھی۔

اور اس شیطان نے اس بچی کو کہا کہ وہ خدا، کنواری مریم اور اپنے والدین کا انکار کرے۔ اور اس خاتون نے بچی کو آمادہ کیا کہ وہ شیطان کی دم کے نیچے پیار کرے۔ اور پھر ان خواتین نے جشن منانے کے لئے رقص کیا۔ اور ان خواتین نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ان سب خواتین نے جو کہ اصل میں عورتیں نہیں بلکہ چڑیلیں تھیں اسی تقریب میں شیطان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔ اس کے بعد ان چڑیلوں نے اپنے دانتوں سے مینڈکوں کی کھال اتاری اور ان مینڈکوں سے ایک پر اسرار شوربہ تیار کیا گیا۔

اس تہلکہ خیز گواہی کے بعد اس بچی نے 35 خواتین کے نام لئے جنہوں نے اس شیطانی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ تاکہ انہیں قرار واقعی سزا دے کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ آپ یہ گواہی سن کر کیا کریں گے؟ ہنس پڑیں گے؟ یا اس بچی کو کسی معالج کی طرف بھجوا دیں گے۔ لیکن اس دور میں ان مذہبی عدالتوں میں بچوں کی ایسی گواہیاں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں۔ بہرحال اس بچی کو ایسی عمدہ گواہی دینے پر معاف کر دیا گیا۔ چند سال بعد اس بچی نے اقرار کیا کہ یہ گواہی جھوٹی تھی اور اس کے رشتہ داروں نے اسے ورغلا کر یہ گواہی دلوائی تھی۔

اس دور کی مذہبی عدالتیں صرف بالغ خواتین اور مردوں میں چڑیلوں اور جادوگروں کو ڈھونڈنے کا کارنامہ سرانجام نہیں دیتی تھیں بلکہ بڑی باریک بینی سے بچوں اور بچیوں میں بھی جادوگروں اور چڑیلوں کو ڈھونڈنے کا فریضہ بھی ادا کرتی تھیں۔

چنانچہ اسی دور میں سپین کے اس سرحدی علاقے میں دو ہزار کے قریب لوگوں پر اس قسم کے مقدمات قائم کیے گئے تھے اور ان میں سے تیرہ سو کے قریب چودہ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس سے ان مذہبی عدالتوں کی دور اندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ اس بھیانک مرض کو جلد ہی پکڑ کر قلع قمع کر دو۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

(Vande Woude, Olivia Louise, ”In the Cathedral of the Devil: Young Witches of Navarre, 1608-1614“ (2020) . Undergraduate Honors Theses. Paper 1529.

اب آپ اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں کہ صرف اسی علاقے میں بچوں پر ایسے مقدمات چلائے گئے تھے۔ اس زمانے میں یہ نیک کام یورپ میں بڑے وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا۔ بچوں پر صرف اس قسم کے مقدمات ہی قائم نہیں کیے گئے تھے بلکہ انہیں بہت کامیابی سے چڑیلوں کو دریافت کرنے اور انہیں ان کے منطقی انجام یعنی زندہ جلانے تک پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ کئی بچوں نے اپنے اساتذہ کو بھی سزا دلوائی۔ کئی بچوں کو جادوگری، چڑیل ہونے اور شیطان کے مرید بن جانے کی پاداش میں جیلوں میں بھجوایا گیا۔ سپین کے علاوہ ناروے، سویڈن اور جرمنی کی مذہبی عدالتوں نے بھی بچوں کو اس قسم کے جرائم کی پاداش میں سزائیں دیں۔

آج ہم ان واقعات پر اظہار افسوس کر سکتے ہیں کہ اس زمانے میں کس طرح کے اوٹ پٹانگ خیالات اور توہمات کے زیر اثر معصوم بچوں کو مذہبی الزامات لگا کر سزائیں دی گئی تھیں، کیسے تنگ نظر لوگ تھے۔ ان کی عقلوں کو کیا ہو گیا تھا؟ لیکن کیا اس قسم کی حماقتوں سے ہمارا دامن مکمل طور پر صاف ہے؟ چند روز قبل ضلع رحیم یار خان میں ایک آٹھ سالہ ہندو بچہ ایک مدرسہ میں گیا اور اس مدرسہ کی لائبریری میں اس بچے کا پیشاب نکل گیا یا اس نے پیشاب کر دیا۔

اتنا بڑا جرم۔ یہ کوئی ایک دو سال کا بچہ تو نہیں تھا۔ آخر پورے آٹھ سال کا عاقل بالغ نوجوان تھا۔ پولیس بیچاری آخر کیا کرتی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو بیٹھ نہیں سکتی تھی چنانچہ انہوں نے اس آٹھ سال کے اس عاقل بالغ مرد کو گرفتار کر لیا اور دو روز حوالات میں رکھا اور مارا پیٹا بھی گیا۔ تاکہ آئندہ اسے پیشاب کرنے کی جرات نہ ہو۔ دو روز کے بعد کچھ مغرب زدہ لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے مقامی عدالت نے اس آٹھ سال کے مجرم کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

بھلا ہماری غیرت یہ کس طرح برداشت کر سکتی تھی۔ ایک ہجوم نے جمع ہو کر موٹر وے بند کی اور پھر ایک فاتحانہ پیشقدمی کرتے ہوئے بھونگ میں مندر پر حملہ آور ہو گیا اور وہاں کی کھڑکیاں دروازے اور بتوں کو پاش پاش کر کے اپنے فرائض ادا کیے ۔ پولیس وہاں پر موجود تھی لیکن منہ دیکھتی رہ گئی۔ آخر وہ آٹھ سال کے بچے کا پیشاب نہیں روک سکے تھے تو اس ہجوم کو کیوں روکتے؟

پاکستان میں ایک آٹھ سال کے بچے کا پیشاب اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ حالات پولیس کے قابو سے باہر ہو گئے اور رینجرز کو طلب کرنا پڑا۔ حکام کا موقف ہے کہ رینجرز کو پیشاب روکنے کے لئے نہیں بلکہ حالات پر قابو پانے کے لئے طلب کرنا پڑا تھا۔

اس واقعہ سے ہمارے وطن کی جو نیک نامی ہو سکتی تھی وہ ہوئی۔ آخر ملک کی سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا۔ اور گزشتہ جمعہ کو پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی اور دوسرے حکام سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ محترم چیف جسٹس صاحب اور جناب جسٹس قاضی امین صاحب نے اس صورت حال پر کچھ تبصرے کیے ۔ تبصرے کیا تھے؟ حالات کا ماتم تھا۔

انہوں نے صوبہ کے اعلیٰ ترین حکام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو عقل سمجھ نہیں ہے۔ آپ اپنا ذہن استعمال نہیں کرتے۔ آپ میں سے کوئی پروفیشنل نہیں ہے۔ آپ میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ آپ نے آٹھ سال کے بچے کو بند کر دیا۔ اس عمر کے بچے کو کیا علم کہ مسلمان کون اور ہندو کون۔ آپ کے اپنے بچے نہیں ہیں۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ آٹھ سال کا بچہ تو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔ آپ بند کر دیتے ہیں بچے کو۔ آپ کو سمجھ میں نہیں آ رہا۔

ممبر اسمبلی محترم رمیش کمار صاحب نے عدالت کو بتایا کہ اس سال اس قسم کے چھ سات واقعات ہو چکے ہیں اور حکومت کی بے عملی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی ہمت بڑھ رہی ہے۔

صوبے کے اعلیٰ ترین حکام آخر کب تک یہ بے عزتی برداشت کرتے انہوں نے سپریم کورٹ کو اپنی کارکردگی سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ہم نے کوئی گرفتاری نہیں کی۔ جب ہم کچھ کرنے لگتے ہیں تو متعصب طبقہ سوشل میڈیا پر شور مچا دیتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ پر بھی ایک مولوی صاحب نے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا۔ اور کچے کے علاقہ سے جرائم پیشہ لوگ جمع ہو گئے۔ گویا یہ دلیل انتظامیہ کی بے بسی کے عذر کے طور پر کافی تھی۔

اس صورت حال میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کیا حل تجویز کرتے؟ جناب جسٹس قاضی امین صاحب نے اس بحث کے دوران تبصرہ فرمایا کہ تو کیا پھر بیرون ملک سے فوج بلوائیں؟ یہ تبصرہ کسی دو ٹکے کے صحافی کا نہیں۔ کسی مغرب زدہ بھارتی ایجنٹ یا لبرل کا نہیں۔ بلکہ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے معزز جج صاحب کا ہے۔

اب ہم کیا اس دن کا انتظار کریں جب پاکستان کی عدالت میں کھڑے ہو کر کوئی وکیل یہ استدعا کرے۔ می لارڈ! یہ بچی چڑیل ہے۔ اسے زندہ جلانے کا حکم صادر فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments