پانی اور رشتے ایک جیسے ہیں


یاد رکھیں، اللہ دی گئی نعمت واپس بھی لے لیتا ہے۔ رزق اور پانی بھی اپنا راستہ بدل لیتے ہے۔ ناقدری بہت بڑا گناہ ہے۔ قدر نہ کریں تو نعمت چھن بھی جاتی ہیں۔ میں نے اپنے قصبے کے لوگوں سے پانی چھینتے دیکھا ہے۔ اسی کی دہائی میں ہمارے قصبے ”کالیکی منڈی“ میں پانی کی فراہمی کے لئے بہت بڑا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ گلیوں، سڑکوں کی کھدائی ہوئی۔ نئے پائپ ڈالے گئے۔ ہر کونے، محلے میں صاف پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ ہر گھر میں واٹر سپلائی کا پانی فراہم ہوا تو گھروں میں نصب ہتھ نلکے بند ہو گئے۔

پانی کے لئے اضافی ٹینکی رکھنے کا کلچر تھا اور نہ ہی پانی مہیا کیے جانے کا کوئی وقت مقرر تھا۔ پانی ختم ہونے کی صورت میں آپ، سب، ہم جا کر پانی کی موٹر چلا سکتے تھے۔ کسی نے موٹر بند نہ کی تو بلند واٹر ٹینک سے پانی نیچے گرنا شروع ہوتا۔ لوگ خود نہاتے، بچے اچھل کود کرتے، خواتین کپڑے دھوتیں یا چرواہے بھینسیں نہلاتے۔ اس بلند و بالا ٹینک کے نیچے یہ سب کچھ ہوتا تھا۔

میرا یقین ہے کہ نعمت، رشتے، سہولیات یا فطری حسن کی قدر نہ کی جائے تو اللہ واپس لے لیتا ہے۔ ہم نے سکون اور امن کی قدر نہ کی۔ بے سکونی اور بدامنی نے گھیر لیا۔ ہم نے رزق کی قدر نہیں کی، دنیا کے بہترین چاول اور گندم اگانے والے ملک کے باوجود بیرونی ممالک سے درآمد کر رہے ہیں۔ روٹی کے لئے ہماری قوت خرید نہیں رہی۔

پانی کی فراہمی کے دوران گھروں میں کسی کی ٹونٹی خراب ہوتی تو ٹھیک کرانے کا کلچر نہ تھا۔ پائپ ٹوٹ جاتا تو مسلسل لیک کرتا رہتا۔ شاپر سے ٹونٹی باندھ دی جاتی۔ میں کسی گلی سے گزرتا تو نظر آتا کہ ٹونٹیاں مسلسل چل رہی ہیں۔ پانی مسلسل بہہ رہا ہے۔ شکستہ پائپ مرمت نہیں کرائے گئے ہیں۔ پائپ فٹر آدھے انچ قطر کے پائپ کنکشن کی منظوری پر دو دو انچ کے پائپ کا کنکشن لگا دیتے۔ کسی کے گٹر، گلی، مکان کی کھدائی ہوتی تو سرکاری پائپ کی حفاظت کا کوئی خیال نہ رکھا جاتا۔

ٹینکی کی موٹر اور اس پر تعینات عملہ موجود ہی نہ ہوتا تھا۔ سیاستدان، صحافی، اساتذہ، علاقے کے رفاہی اداروں کسی نے اس نعمت کو ضائع کرنے کا نوٹس نہ لیا۔ ازاں بعد یہ موٹر جل گئی۔ فنڈز ختم، پائپ گل سڑ گئے۔ گندے نالے کا پانی اس میں مکس ہونا شروع ہوا۔ وہی پائپ جن میں لوگ کنکشن پر کنکشن لگاتے تھے، عمارتی کاموں پر توڑتے اور کھدائی پر نظر انداز کرتے تھے وہ ان کے گھروں کی بنیادوں میں پانی بھرنے لگے۔ دیواریں گرنے لگیں۔ بالآخر پانی کی فراہمی کا بہترین نظام تباہ ہو گیا۔ موٹر جل گئی اور ٹینکی بند۔

پانی کی قدر، اہمیت، احساس و لحاظ ختم ہوا تو پانی نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ پینے کے لئے پانی شہر سے دو کلومیٹر دور سے منگوایا جاتا ہے۔ ہر بوتل پر پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔ عام بور کا مقامی پانی گندا ہو گیا۔ ہر گھر کو موٹر یا مینول نلکا لگانا پڑا۔ سینکڑوں فٹ گہرا بور ہو تو پانی ٹھیک ہے۔ بجلی نہ ہونے کی صورت لوگ پانی کو ترستے ہیں۔ ٹیکنالوجی سے واپس ہتھ نلکوں کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ ویسے ہی جیسے ہم Inorganic سے آرگینک فوڈ کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

طویل عرصہ قبل میں اس ٹینکی کے آپریٹر سے ملا اور پوچھا کہ اوپر رسی کے ساتھ یہ جوتا کیوں بندھا ہوا ہے؟ کبھی کبھار یہاں لکڑی کا ٹکڑا یا پتھر بھی بندھا ہوتا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب یہ ٹینکی بھر جاتی ہے تو پانی کے سبب یہ جوتا رسی کی مدد سے نیچے آتا جاتا ہے۔ جب پانی ختم ہو تو یہ جوتا اوپر چلا جاتا ہے۔ یہ پانی کی ٹینکی میں مقدار ماپنے کا پیمانہ تھا۔ یہ عام استعمال والے فلوٹ والوو جیسا تھا۔ اس ٹینک میں پانی تو کئی سالوں سے ختم ہے۔

ممکن ہے وہ جوتا اب بھی اوپر لہرا رہا ہو۔ میری نظر کمزور ہو گئی ہے۔ میں اتنی دور دیکھنے سے قاصر ہوں۔ ویسے بھی کئی ماہ بعد چھٹی جانا نصیب ہوتا ہے۔ ممکن ہے وہ جوتا اب بھی اوپر لہرا رہا ہو۔ میرے قصبے کے جس بھائی کی نظر تیز ہے، مجھے ضرور بتائیے گا کہ وہاں ہے یا نہیں؟ اور یہ کب تک اوپر ہی رہے گا؟ اور ہاں۔

نعمت کی قدر کریں۔ میں نے اسلام آباد میں پانی ختم ہوتے دیکھا ہے۔ بہترین سیکٹرز پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔ راولپنڈی کی گلزار قائد، غوری ٹاؤن جیسی سوسائٹیوں میں پانی ختم ہو چکا ہے۔ کراچی کی سینکڑوں بستیاں، علاقے پانی سے محروم ہیں۔ ساؤتھ افریقہ میں جوہانسبرگ جیسے دارالحکومت پانی کی کمی سے ویران ہو رہے ہیں۔ پانی ہو یا رزق، ضائع نہ کریں۔ یہ منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ واپس پلٹ جاتا ہے۔ ان کی طرف چلا جاتا ہے جدھر سے اسے قدر ملتی ہے۔ یہ بھی رشتوں کی طرح ہے۔ یہ ناقدری پر مر جاتا ہے۔ ناراض ہو جاتا ہے اور صرف ہماری پرانی یادوں میں رہ جاتا ہے۔ آپ سمندر کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments