تایا قاسم علی کو ہی مشیر بنا کر دیکھ لیں


اشفاق احمد صاحب کو سننے والے اور پڑھنے والے یہ واقعہ پہلے بھی سن اور پڑھ چکے ہیں۔ باقیوں کے لئے دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کو سننے کا مزہ خود ان کی زبان سے سننے میں ہی ہے : ”جب میں میٹرک کرنے کے بعد ایف۔ اے میں داخل ہوا تو مجھے پھر شہر آنا تھا۔ میری ماں نے ہمارے ملازم کو ایک ٹرنک سا دیا اور کہا کہ جا کر اشفاق کو چڑھا آ۔ ان دنوں ہمارے ہاں سے ایک چھوٹی گاڑی چلتی تھی۔ جب میں چلنے لگا تو میری ماں نے کہا کہ ٹھہر جا اور اسٹیشن جانے سے پہلے تایا قاسم علی کو سلام کر کے جانا۔

خواتین و حضرات! ہمارا وہ تایا پورے گاؤں کا تایا تھا۔ وہ موچی تھا۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر جوتوں کو ٹانکے لگایا کرتا تھا۔ ( حقیقت میں میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ میں اب میٹرک پاس کر چکا ہوا تھا اور اللہ نے مجھے عقل دے دی تھی) اب ماں مجھے زبردستی وہاں بھیج رہی تھی کہ تائے کو مل کر جانا ہے اور میں چار و ناچار، نہ چاہتے ہوئے تائے کے پاس گیا اور انہیں سلام کیا۔ جب ان کو پتا چلا کہ میں کالج میں پڑھنے کے لئے شہر جا رہا ہوں تو انہوں نے مجھے تین نصیحتیں کیں۔ پہلی یہ کہ وہاں ایسی قمیض زیب تن نہیں کرنی جس کی آستین یا کف الٹے ہوں۔ دوسری یہ کہ بودے یعنی لمبے بال نہ رکھنا اور تیسری لڑکیوں کو نہ دیکھنا۔ ”

اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شہر جا کر یہ تینوں کام ہی کیے۔ نہ صرف قمیض کی الٹی آستینیں بنوائیں بلکہ اس کے کالر بھی بڑے بڑے بنوائے اور ”بودے“ بھی رکھ لئے۔ پہلے دو کا تو ان کو بچپن اور لڑکپن سے ہی شوق تھا اور وہ اس انتظار میں تھے کہ بڑے ہو کر شہر جا کر آزادی سے یہ آرزوئیں پوری کریں گے۔ تیسری نصیحت پر بھی عمل کرنا ممکن نہیں تھا کہ لڑکیاں ساتھ ہی پڑھتی تھیں۔ وہ تو پھر وہاں تھیں ہی، اس لئے ان کو دیکھتے بھی تھے۔

اشفاق صاحب کہتے ہیں شہر سے تعلیم حاصل کر کے جب میں گاؤں واپس آیا تو اپنے ”جدید علم“ کی دھاک بٹھانے تایا قاسم علی کے پاس درخت کے نیچے گیا اور اس کو بتایا کہ مکھی کی آنکھ میں تین ہزار محدب شیشے یا لینز لگے ہوتے ہیں اور یہ ہر زاویہ سے دیکھ سکتی ہے اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ جب بھی اور جس طریقے سے بھی اس پر حملہ آور ہوں، یہ اڑ جاتی ہے۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا اس بات کا تائے پر بڑا رعب پڑے گا کیوں کہ میرے خیال میں میں نے بڑے کمال کی بات کی تھی۔

تائے نے ان کی بات سن کر کہا ”لخ لعنت ایسی مکھی تے جندیاں تن ہزار اکھاں ہون اور جدوں وی بہندی اے گندگی تے بہندی اے۔“ ( ایسی مکھی پر بے شمار لعنت ہو جس کی تین ہزار آنکھیں ہوں اور وہ جب بھی بیٹھے گندگی پر ہی بیٹھے ) ۔

اب بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اشفاق صاحب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو نصیحتوں کے لئے کسی پڑھے لکھے انسان کی بجائے گاؤں کے ان پڑھ موچی کے پاس کیوں بھیجا؟ حتیٰ کہ انہوں نے گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس بھی بھیجنا پسند نہیں کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ وہ غیر رسمی ماہرین تعلیم اور سکالرز ہیں جن کو ہم نے اب فراموش کر دیا ہے۔ یہ ہمارے گھروں میں دادوں، نانوں، دادیوں، نانیوں اور دوسرے بزرگوں کی صورت میں موجود تھے اور ان کا ہماری زندگیوں پر بہت مثبت اثر ہوتا تھا۔ یہ گاؤں کی چوپالوں اور شہر کے تھڑوں پر مفت تعلیم دیتے تھے۔ لوگ ان کے پاس بیٹھ کر شوق سے فیض پاتے تھے۔ آج ہم ان کی جگہ پر خود ہی عالم فاضل اور سکالرز بن بیٹھے ہیں کہ ہمارے پاس ”جدید علوم“ کے ذخیرے ہیں۔

اپنے ملک کی صورت حال دیکھیں تو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے حالات کیا سدھرنے تھے، ہم تو نظام کی بہت سی بنیادی باتیں ہی طے نہیں کر سکے کہ آخر ہم نے کرنا کیا ہے۔ خارجہ پالیسی کا یہ عالم کہ ”اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش۔“ داخلی معاملات بھی چاہے حکومت کون سی بھی ہو، بگڑے ہی رہتے ہیں۔ معاشیات، ریلوے، پی آئی اے، بجلی اور گیس کا شعبہ، تعلیم، ٹریفک، مہنگائی، ملاوٹ، پولیس کا محکمہ کہیں سے بھی ٹھنڈی ہوا رہی ہے؟ ہر حکومت پر یہی تنقید ہوتی ہے کہ حکمران تو اچھے تھے، بس نا اہل مشیر لے ڈوبے۔ تو صاحب اگر مرض کی تشخیص یہی ہے اور اگر پڑھے لکھے، بین الاقوامی شہرت کے درآمد شدہ اور امیر ترین مشیروں سے بات نہیں بن رہی تو ایک بار ان کی جگہ پر کسی غریب تایا قاسم علی کو ہی مشیر رکھ کر دیکھ لیں۔ شاید بات بن ہی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments