میکاولی کا ”پرنس“ اور پاکستانی سیاستدان


اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کیسا انسان بننا چاہیے گے تو یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ آپ ایک نیک اور ایماندار انسان بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ آپ ایک اچھے انسان بننے کی خواہش رکھتے ہوں گے اور اچھا نظر آنا چاہتے ہوں گے کیوں کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ برا ہونا ایک برا خیال ہے۔ آپ کا عمومی خیال یہ ہوگا کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اور نہ ہی وعدہ خلافی کرنا کوئی اچھی بات ہے۔ لیکن سولہویں صدی میں ایک شخص ایسا بھی گزار ہے جو بالکل اس کے برعکس سوچا کرتا تھا۔

1469 میں اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہونے والا شخص جس کا نام میکاولی تھا کا کہنا تھا کہ ایمان دار ہونا کوئی اچھی بات نہیں اور نہ ہی اپنے وعدوں کا پابند ہونا بہت ہی نیک عمل ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ ہمیں اپنے وعدوں کی پاسداری کے لئے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

اپنی کتاب ”پرنس“ میں وہ لکھتا ہے کہ ایک پرنس کو یہ نہیں سیکھنا چاہیے کہ اچھا انسان کیسے بنا جائے بلکہ اسے یہ سکھایا جانا چاہیے کہ برا نسان کیسے بنا جائے اور یہ ہی دراصل ایک پر اثر پرنس کی خاصیت ہونی چاہیے۔

1532 میں چھپنے والی کتاب ”پرنس“ میں ہر اس شخص کے لئے بہت کچھ ہے جو اقتدار میں ہمیشہ رہنا چاہتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے اس کتاب میں جسے ہر مکرو اور بدعنوان سیاست دانوں کو یہ کتاب لازمی پڑھنی چاہیے۔ بے شک، اقتدار کے بھوکے اور لالچی سیاستدانوں کے لئے اس میں بہت زیادہ نصیحتیں پائی جاتی ہیں جو ان کی اقتدار کے ایوانوں کی سمت کی رہنمائی کرتیں دکھائی دیتی ہے۔

’پرنس ”کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک شہزادہ کو بہادر اور جواں مرد ہونا چاہیے۔ میکاولی کا کہنا تھا کہ کامیابی کا دار و مدار کافی حد تک ایک اچھی قسمت ہونے پر ہے۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا آدھا حصہ موقعہ ملنے اور نہ ملنے میں صرف ہوجاتا ہے جبکہ باقی ہمارے انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہمیں کیا منتخب کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ تاہم وہ یہ بھی عقیدہ رکھتا تھا کہ ہم اپنی ناکامیوں اور نا کامیابیوں کو مات دے کر اپنی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں۔

محض اس لئے کے قسمت ہماری زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ہمیشہ مظلوموں کی طرح زندگی گزاریں۔ ہمارے زندہ بچنے کی امید اس وقت بڑھ جاتی ہے اگر ہم کسی آفت کے آنے سے پہلے اس آفت کا ادراک کر لیں۔ یہ سوچ لینا کہ سیلاب ہمیں بہا لے جائے گا اس بات سے بہتر ہے کہ ہم سیلاب سے بچنے کا اسباب پیدا کریں۔ اصل لیڈر وہ ہی ہے جو آنے والے وقت سے پہلے اچھی تیاری کر کے رکھتا ہے وہ ہی آنے والے وقت سے ہر طرح نبرد آزما ہو سکتا ہے۔

میکاولی کا خیال تھا کہ لیڈروں سے محبت کے برعکس خوف کھانا بہتر ہے۔ اگر آپ اس بات پر انحصار کریں گے کہ عوام آپ سے محبت کریں تو ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ ہی عوام آپ پر حاوی ہو جائے گی، لہذا عوام کو لیڈر سے خوفزدہ رہنا چاہیے کیوں کہ ایسا کرنے سے عوام بغاوت اور غداری کرنے سے ڈریں گے۔

یہ ہی دراصل میکاولی کا جنون اور طرز حکمرانی کا فلسفہ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان لالچی، جھوٹا اور ناقابل بھروسا ہوتا ہے۔ لہذا اگر آپ ایک کامیاب حکمران بننا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی پر بھی بھروسا کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک کوئی کسی بھی صورت آپ سے وعدہ وفا نہیں کرے گا، جب تک ان کو اس خوف کا احساس نہ دلایا جائے کہ وعدہ خلافی کے نتیجہ میں انہیں سخت اور خطرناک نتائج بگھتنا پڑیں گے۔

کچھ حاصل کرنے کے لئے، میکاولی کے مطابق، ایک پرنس کو اپنے اندر کچھ وحشی درندوں کی خصوصیات بھی پیدا کرنا چاہیے تاکہ اپنے خواہش کردہ نتائج کو حاصل کیا جاسکیں۔ اس کا کہنا تھا کہ لومڑی سے چالاکی اور شیر سے درندگی سیکھنا چاہیے۔ لومڑی کینہ پرور ہوتی ہے اور اپنے لئے بچھائے گئے جال کو بھانپ لیتی ہے، جبکہ شیر بہت طاقتور اور خطرناک ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ شیر کی طرح نہیں ہونا چاہیے کیوں طاقتور اور درندہ بھی کبھی جال میں پھنس جاتا ہے۔ نہ ہی ہمیشہ چلاک لومڑی کی طرح ہونا چاہیے بلکہ کبھی کبھی شیر کی طرح خطرناک طاقت کا مظاہر بھی کرنا چاہیے تاکہ اپنے آپ کو خطرے سے محفوظ رکھ سکیں۔

میکاولی کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی برا انسان تھا اور یہ ہی وجہ ہے کہ میکاولین کا لفظ آج کے معاشرہ میں کسی کی تذلیل کہ لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی آپ کو یہ کہہ دے کہ آپ کا رویہ میکاولین کی طرح ہے تو سمجھ جائیے کہ اس کا اشارہ آپ کے بے حس اور ظالم انسان ہونے کی طرف ہے۔ تاہم بہت سے فلسفیوں کا ماننا تھا کہ میکاولی نے ہماری توجہ اس اہم بات کی طرف کروائی ہے کہ ایک عام اور اچھا رویہ کسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا کیوں کہ ایک ریاست کے امور چلانے کے لئے اور دوسرے ممالک پر بھروسا کرنے کے لئے آپ کو ایک جارحانہ پالیسی مرتب کرنا پڑے گی جو آپ کو کامیابیوں سے ہمکنار کروائے گی۔ دنیا میں بہت سے ایسے لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے میکاولی کے رہنما اصولوں پر عمل کر کے اقتدار کے مزے لوٹے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ایسے بہت سے لیڈروں سے بھری پڑی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ایسے لیڈروں کو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments