ڈائنوسار کیا کھاتے تھے!


یہ بڑا ہی پرانا قصہ ہے کہ ایک دن جنگل میں گھومتے گھومتے ایک ”سائیلو سارس“ نے کھانا کھایا اور اب تئیس کروڑ سالوں بعد سویڈن کے سائنسدان ہمیں بتا سکتے ہیں کہ اس دن سائیلو سارس ڈائینو سار نے کیا کھایا تھا۔ دراصل سویڈن کی اوپسالہ یونیورسٹی کے ماہرین ڈائینو سار کے فضلے کی جدید ترین ”سنکروٹون سکینگ ٹیکنالوجی“ کے ذریعے جانچ پڑتال کر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس فضلے میں دیگر کیڑوں کے علاوہ ایک ایسا بیٹل بھی تھا کہ جس کی قسم سے اس وقت تک سائنسدان واقف ہی نہیں تھے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ بیٹل کی نئی اگر چہ معدوم شدہ نسل کا علم ہوا ہے۔ یہ تحقیق کرنٹ جرنل نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی یہ بہت اچھی حالت میں تھے۔ ”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اس طرح یہ جان سکیں گے کہ اس وقت ڈائینو سار نے کیا کھایا تھا“ اس تحقیق کے شریک مصنف گریگوروز نیڈے وزنسکی نے جو اوپسالہ یونیورسٹی میں قدیم انواع کے ماہر (پیلینٹالوجسٹ) ہیں۔ ”ہم یہ تو یقین سے نہیں بتا سکتے ہیں کہ کس ڈائنوسار نے اسے کھایا تھا مگر ہم اس کے قریب ترین ڈائینو سار کے ملنے والے رکازات کی بنیاد پر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسی ڈائنوسار کا یہ فضلہ تھا“ ۔

اور یہ رکاز سائیلو سارز ڈائینو سار کا تھا۔ یہ ڈائینو سار چھوٹی قسم کے ہوتے تھے جو گرے ہاؤنڈ کتے کے برابر دکھائی دیتے اور ان کی چھوٹی سی چونچ اور ڈائینو سارز کی طرح کی دم ہوا کرتی تھی۔ ناک سے لے کر دم تک ان کی لمبائی ساڑھے سات فٹ ہوا کرتی تھی۔ اس نسل کے ڈائینو سارز کے اب تک بیس رکازات ملے ہیں۔ یہ رکازات پولینڈ سے ملے ہیں۔ یہ ڈائینو سار اپنی چونچ کا اسی طریقے سے استعمال کرنا جانتے تھے جیسے کہ ان کی آج کی نسل جیسے کہ چڑیاں، مرغیاں وغیرہ جانتی ہیں۔

یہ اپنی چونچ کے ذریعے زمین پر رینگتے ہوئے بیٹل اور دیگر کیڑے مکوڑے اٹھا کر کھا جاتے تھے۔ فضلے سے ملنے والے ان بیٹلز میں سے بعض تو بہت ہی اچھی حالت میں تھے اور ان کی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں اور سر کے اینٹینا تک سلامت تھے۔ یہ بیٹل فضلے میں محفوظ رہے اور اس کے رکاز میں بدل جانے کی وجہ سے آج تک صحیح سلامت رہے۔ اسی وجہ سے سائنسدان موجودہ دور کے بیٹلز سے ان کا تقابل کرنے میں کامیاب رہے۔ یوں سائنسدانوں نے جانا کہ یہ ”میاکسوفگا“ (Myxophaga ) نامی بیٹلز کی ایک زیلی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

میاکسوفگا بیٹلز بہت عرصے سے اس دنیا میں موجود ہیں اور ان کے دیگر رکاز درختوں سے نکلنے والے قدرتی بیروزے (امبر) سے ملے ہیں۔ میاکسوفگا بیٹل دنیا کے دوسرے چھوٹے ترین بیٹل ہیں۔ اگر آپ ان کو محدب عدسے کے بغیر دیکھیں تو یہ چیچڑی جیسے لگیں گے۔ ان میں سے کچھ تو محدب عدسے کے ساتھ بھی چیچڑی ہی لگیں گے لیکن چیچڑی کے برعکس یہ نہ تو خون چوستے ہیں اور نہ بیماری پھیلاتے ہیں۔ یہ الجی یا کائی کے خلیات کھا کر نمی والے ماحول میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور یہ خود سائیلو سارس ڈائنوسارز کے طرز زندگی سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اس دور میں پولینڈ کا علاقہ دلدلی ہوتا تھا۔

”ہم لوگ بیٹلز کی فراوانی اور انتہائی زبردست حالت میں محفوظ رکھنے پر سائیلو سارس کے شکر گزار بھی ہیں اور انتہائی حیران بھی، کیونکہ اگر وہ اسے محفوظ نہ کرتا تو ہم تک یہ معلومات نہ پہنچ پاتیں۔“ یہ کہنا ہے مارٹن کوورنسٹورم کا جو اس تحقیقی مقالے کے دوسرے شریک مصنف ہیں۔

چنانچہ ہمیں سائیلو سارس کا مشکور ہونا چاہیے کہ اس نے ان بیٹلز کو کھایا کیونکہ اسی وجہ سے یہ معلومات انسانوں تک پہنچی ہیں۔ سائیلو سارس کے لیے بڑے بیٹلز اور کیڑے مکوڑوں کے مقابلے میں یہ چھوٹے بیٹلز ایسے ہی تھے جیسے مرغ کی ٹانگ اور مکئی کے بھٹے۔

”اگر چہ سائیلو سارس ڈائینو سار ان چھوٹے بیٹلز کو شوق سے کھاتے تھے لیکن ان کی خوراک صرف ان تک محدود نہ تھی بلکہ وہ بڑے کیڑے مکوڑے بھی کھاتے تھے، لیکن چونکہ ان کو سالم کھانا ممکن نہ تھا اس لیے وہ فضلے کے اندر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں تھے جبکہ یہ بیٹلز چھوٹے ہونے کی وجہ سے سالم ہی نگل لیے جاتے تھے، اس لیے یہ آج تک انتہائی محفوظ حالت میں رہے۔“ یہ وضاحت اس مقالے کے دونوں شریک مصنفین نے دی۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ہم انسان دیگر چیزیں تو چبا چبا کر کھا جاتے ہیں اور فالسے یا اس قسم کی چھوٹی چیزیں سالم نگل جاتے ہیں۔ کون جانے کہ ہمارے بھی ان اشیاء کو سالم کھانے سے کوئی تاریخ رقم ہو رہی ہو لیکن ہم اس کا علم ہی نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments