سوشلزم نہیں، سوشلسٹ ممالک کے حکمران ناکام ہوئے: مرزا ابراہیم


( 11 اگست برصغیر کے عظیم مزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم کی اکیسویں برسی کے موقع پر)

جب، میرے ایک غیر معمولی ساتھی، شیخ صاحب مجھے ریلوے کوارٹرز کا نقشہ بنا کر، مرزا ابراہیم تک رسائی کا راستہ سمجھانے کی ان تھک کوشش کر رہے تھے تو میں بخوبی آگاہ تھی کہ یہ کارِ لاحاصل تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں مختلف زاویوں سے ایک نقطے پر پہنچنے کی کوشش میں تھے اور سمتوں کے حوالے سے ہمارے مابین پایا جانے والا تضاد ختم ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے لازماً مغلپورہ کی جانب سے جانا چاہیے جب کہ میں کینال روڈ کی طرف سے جانے پر بضد تھی۔ خوش قسمتی سے اثنائے بحث میں نے انھیں یہ کہتے سن لیا ”جب کالونی کے اندر پہنچ جاؤ تو کسی سے بھی مرزا ابراہیم کے بارے میں پوچھ لینا وہ تمھاری رہنمائی کر دے گا۔ “ میں نے ایسا ہی کیا اور مرزا صاحب تک رسائی میں یہی چیز سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوئی۔

کالونی میں قائم پہلے دفتر۔ گرڈ سٹیشن۔ کے سامنے رُک کر میں نے دکھائی دینے والے پہلے شخص سے پوچھا کہ مرزا ابراہیم مجھے کہاں مل سکتے ہیں تو اس نے پیش کش کی کہ وہ مجھے ان کے گھر تک چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن اپنے گھر سے پہلے ہی مرزا ابراہیم، راستے میں ایک بینچ پر بیٹھے، اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ چائے پیتے ہوئے مل گئے۔ وطن عزیز کے بزرگ ترین مزدور رہنما کو بالکل توانا اور صحتمند دیکھ کر مجھے کافی خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں نے اُن سے انٹرویو کا پوچھا تو حیرانی کا ایک اور دَر مجھ پر وا ہو گیا۔ یہ حضرت کسی ٹریڈ یونین کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے سکھر اور خان پور کا قصد کیے ہوئے تھے اور دوبارہ اُن سے ملاقات دو دِن کے بعد ممکن تھی۔

اس انٹر ویو کے لیے میرا تجسس کچھ اور سوا ہو گیا تھا کہ مجھے ایک ایسے شخص کی گفتگو سننے کا موقع ملنے والا تھا، جس نے ہنگامہ خیز واقعات سے بھرپور زندگی گزاری تھی (اگرچہ ان میں سے زیادہ تر واقعات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے) اور 88 برس کی عمر میں بھی وہ اس قدر فعال تھے۔ دو دِن کے بعد میں پھر ان کی کالونی پہنچی اور اپنے منتظر مرزا ابرہیم کو تلاش کر لیا۔

گذشتہ برسوں میں جہاں بہت سے سوشلسٹ اپنے محبوب نظریات سے چمٹے رہنے کی غلطی پر نادم اور اس بارے میں دفاعی رویہ اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں مرزا ابراہیم آج بھی اپنے زندگی بھر کے آدرشوں کا پرچم اٹھائے میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ سوشلزم کا انہدام ان کے خیال میں ایک افسانہ ہے جس پر وہ یقین کرنے یا اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر سامراج کی مخالفت کی تھی، مرزا ابراہیم کے خیال میں سوشلسٹ ممالک کے حکمرانوں نے بھی سامراجی رویے اختیار کر لیے تھے اور اسی وجہ سے یہ لوگ اپنے ملکوں میں ناکامی سے دو چار ہوئے۔

ضلع جہلم کے گاؤں کالا گجراں میں جنم لینے والے مرزا ابراہیم کے لیے سوشلسٹ ہونا کسی انتخاب کا نہیں بلکہ مجبوری کا نتیجہ تھا۔ ان کا گھرانہ بے زمین کسان گھرانہ تھا اور ان کا گاؤں انتہائی پسماندہ تھا جہاں کوئی سکول، کالج یا فیکٹری وغیرہ نہ تھی۔ برطانوی راج میں اُن کے گاؤں پر عائد ہونے والے لگان نے گاؤں کے باسیوں کو بری طرح سے متاثر کیا کہ اس لگان کی ادائیگی کی سکت ان میں نہ تھی۔ 1921 ء میں مرزا ابراہیم تحریک خلافت کے قوم پرستانہ نعروں سے متاثر ہوئے اور اپنے گاؤں میں اُن کا پرچار شروع کر دیا۔ نانِ جویں کے حصول کے لیے بھیڑیں پالنے کا کام اور یہ سیاسی سرگرمی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

جہاں تک ممکن ہوا گزارہ کیا لیکن جب حالات بد سے بدتر ہو گئے تو مرزا ابراہیم ریلوے مزدور کے طور پر بھرتی ہو گئے۔ جہلم برج ورکشاپ میں اندراج ہوا اور انہیں لاہور بھیج دیا گیا۔ یہاں پہنچ کر جب انہوں نے انگریز افسروں کو حاصل مراعات اور ان کی طرف سے اپنے اختیارات کے بے دریغ ناجائز استعمال کا مظاہرہ دیکھا تو ان کی مایوسی بہت بڑھ گئی۔ مرزا صاحب نے اس مایوسی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور مزدوروں کی مختلف انجمنیں بنانا شروع کر دیں۔

مرزا ابراہیم ایک خود آموز شخص ہیں جنہوں نے کوئی روایتی تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اپنے آس پاس موجود لوگوں کے مصائب نے انہیں بہت کچھ سکھایا۔ وہ اپنے سماج کے لیے رستا ہو پھوڑا بن چکی معاشی ناہمواری اور جاگیر داری، وہ عناصر جو ہمارا ثقافتی مہاندرہ ترتیب دیتے ہیں، کے علاوہ امریکہ بہادرکے بارے میں، جس کی آشیر واد کے بغیر ہمارے ہاں حکومت تک تشکیل نہیں پاتی، بڑی کراہت سے سے بات کرتے ہیں۔ مرزا ابراہیم ایک ایسی سیکولر حکومت کی آرزو رکھتے ہیں جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے پرامن زندگی اور تمام سماجی طبقات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

مرزا ابراہیم کے لیے ٹریڈ یونین کارکنان کی طرف سے صحت مند، متوازن اور مؤثر کارکردگی کا مظاھرہ اور جواباً اُن کے لیے نوکری کا تحفظ، سوشل سیکیورٹی اور سیاسی حقوق کی ضمانت کے لیے کوشش کا دوسرا نام ہے۔ ”اس کا مقصد انارکی، اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور انتشار پھیلانا نہیں ہے لیکن کسی مزدور یونین کو مالک کی ناک کا بال بھی نہیں بن جانا چاہیے۔ “ جہاں بہت سے مزدور رہنما خود ملوں کے مالک بن گئے وہاں مرزا ابراہیم اپنے لیے ایک گھر تک نہ بنا پائے، حتیٰ کہ ان کے پاس اپنی سائیکل تک نہیں ہے۔

ان کا زندگی بھر کا سرمایہ مزدور طبقہ ہی ہے اور وہ لوگ بھی، ممکنہ حد تک، ان کے خلوص اور احسانوں کا قرض چکانے کو تیار ہیں۔ مزدوروں کی صفوں میں مرزا ابراہیم کو جو احترام حاصل ہے اور جس طرح سے وہ لوگ مرزا صاحب کی پیروی کرتے ہیں وہی اُن کی کل متاعِ حیات ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں، مرزا ابراہیم کے دوست، آل انڈیا ریلوے مین فیڈریشن کے وی وی گری، صدارت کے عہدے تک پہنچ گئے جب کہ ہم پاکستانی صرف اسی بات سے اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں کہ مزدور طبقات کے اندر مرزا ابراہیم کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

ملکِ عزیز میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے مرزا ابراہیم کے ساتھ معاندانہ سلوک ہی کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کے اٹھارہ برس، بٹوارے سے پہلے اور بعد میں، جیل میں گزارے۔ چھ سات بار تو وہ لاہور کے شاہی قلعے میں ”مہمان“ بنائے گئے جہاں اُن پر اتنا تشدد کیا گیا کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن جب جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا انہوں نے لاکھوں مزدوروں کو اپنی پشت پر کھڑا محسوس کیا، یہ احساس ان کے ایقانات کے لیے مہمیز کا کام کرتا تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ حکومتوں نے مرزا ابراہیم کو رام کرنے کے لیے صرف معاندانہ انداز ہی اختیار کیا ہو۔ وقتاً فوقتاً انہیں ہر طرح کی نوازشات کی پیش کش کی جاتی رہی لیکن اس کے لیے شرط یہ ہوتی کہ وہ حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا لیں، مرزا ابراہیم نے ہمیشہ ایسی پیش کشوں کو رد کیا۔ بہت سے امریکی سفیروں نے اُن سے رابطہ کیا کہ وہ ان کے ملک کا دورہ کریں لیکن انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔

مرزا ابراہیم اپنے ذاتی مصائب کے بارے میں کھل کر کبھی بات نہیں کرتے۔ میرے اصرار پر وہ کچھ کچھ کھلے توضرور لیکن انہوں نے ان باتوں کوریکارڈ پر لانے سے منع کر دیا۔ مرزا ابراہیم کے ساتھ معذرت کے ساتھ میں ان کی حکم عدولی کر رہی ہوں۔ ان کے بیٹے کو انتظامیہ تبدیل ہوتے ہی پاکستان ٹائمز سے نکال دیا گیا؛ ان کی پوتی، جس کے پاس جغرافیہ میں فرسٹ کلاس ڈگری ہے، اسے ان کی وجہ سے کہیں نوکری نہ ملی؛ ان کے پوتے کو ان کی وجہ سے آرمی میں کمیشن نہ مل سکا۔ مرزا ابراہیم کے خاندان پر سختی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

بٹوارے کے وقت، اُس زمانے کی ترقی پسند جماعتوں نے، پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی تھی، مرزا ابراہیم کا اس زمانے میں کیا موقف تھا؟ ”جب مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں الگ وطن دیا جائے کیونکہ وہ ایک الگ کمیونٹی ہیں تو ہم نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ لیکن میں نے کبھی مسلم لیگ یا کسی اور بورژوا جماعت کی، جس میں جاگیردار شامل ہوں، ممبر شپ نہیں لی۔ ترقی پسند جماعتوں نے مسلمانوں کے حق خود ارادی کی حمایت اس بنیاد پر کی کہ ان کی ثقافت، میراث، فنون لطیفہ اور معیشت جداگانہ تھی، صرف مذہب مختلف ہونے کی بنیاد پر یہ حمایت نہیں کی گئی تھی۔ “ تاہم مرزا ابراہیم کو اب اِس بات پر پچھتاوا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں جگہوں پر مذہبی بنیاد پرستی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔

مرزا ابراہیم تحریک آزادی میں ٹریڈ یونینوں کے کردار کے بہت قائل ہیں۔ ”1946 ء میں انڈین نیوی میں بغاوت ہوئی، دہلی پولیس نے ہڑتال کی، انبالہ میں رائل ائیر فورس میں ہڑتال ہوئی اور اس کے بعد ریلوے میں ایک کامیاب آل انڈیا ہڑتال ہوئی اور یوں ہم نے برطانویوں کو مجبور کر دیا کہ وہ طے شدہ وقت سے دو برس پہلے ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں۔ “

مرزا ابراہیم کا تعلق صرف ریلوے سے ہی نہیں تھا، وہ آل انڈیا ٹریڈ یونینز کے بھی ممبر تھے۔ ایک بار اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ مرزا صاحب کسان یونین کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے تو کسانوں کے ایک گروہ نے ایک ریلوے جنکشن پر اُن کی ٹرین روک لی۔ وہ لوگ مرزا ابراہیم کی تقریر سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کسانوں سے کہا کہ وہ تو انگریزی یا مراٹھی زبان نہیں بول سکتے۔ لیکن اُن لوگوں نے اصرار جاری رکھا کہ وہ کسی بھی زبان میں بات کریں لیکن بات ضرور کریں۔ مرزا ابراہیم نے اردو میں تقریر کی اور ہجوم نعرے لگاتا اور تالیاں بجاتا رہا۔ جب مترجم نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ کس بات پر تالیاں بجا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ مرزا ابراہیم کے جوش اور ان کے حوصلے کی داد دے رہے ہیں۔

مرزا ابراہیم آج بھی اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ ہم اپنے جاگیردارانہ سماج میں مزارعین کے لیے قوانین نہیں بنا سکے حالانکہ مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین کی شکل میں ہمارے پاس نمونہ بھی موجود تھا۔ ”مزارعے کی زمین، گھر اور جانور ہر شے پر زمیندار کا کنٹرول ہے۔ اس کا سارا خاندان زمیندار کا چوبیس گھنٹے کا ملازم ہوتا ہے۔ لیکن ہم جاگیرداروں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے کیونکہ وہ ہماری سیاست اور ہماری پارلیمان تک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ “

پرانی سیاست کی آنکھیں دیکھے ہوئے مرزا ابراہیم کے لیے پاکستانی سیاست میں دَر آنے والے کرپشن کے عنصر کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ ”ممدوٹ، دولتانہ، نشتر اور قیوم خان جیسے لوگ کرپٹ نہیں تھے۔ اب تو وُزرا بلکہ سیاسی کارکنان تک پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے اختتام پر لوگ برادریوں کے نام پر تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ساری دُنیا میں سرمایہ داری نظام کے پروردگان ایک جانب انسانیت کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور دوسری طرف اسلحہ بنا کر بیچنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

ہمیں اپنے ذرائع پیداوار بڑھانے کی تگ و دو کرنی ہوگی، بیرونی قرضوں کے چُنگل سے نکلنا کی سعی کرنی ہوگی تاکہ ہم آزادانہ اپنی ملکی پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ “ مرزا ابراہیم کی گفتگو سننا ایک فرحت بخش تجربہ ہے۔ ان جیسے بے لوث رہنماؤں کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو زیادہ عرصہ تک بے خبری کی تاریکی میں نہیں رکھا جا سکتا۔

مرزا ابراہیم اپنے پرانے ساتھیوں میں سے ڈانگے، اسماعیل فاروقی، بنگال کے آخری گورنر ڈاکٹر عبدالمالک، فیض احمد فیض، فضل الہٰی قربان، سی آر اسلم اور سوبھو گیان چندانی کو یاد کرتے ہیں۔ ”اس کے بعد میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری اور مظہر علی خان جیسے لوگ تھے جنہوں نے لکھنے پڑھنے اور قانونی میدان میں ہمیں معاونت مہیا کی۔ یہ لوگ اگرچہ بالائی سماجی طبقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ ہم لوگوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ “

مرزا ابراہیم کو زندگی سے کوئی گلہ نہیں۔ رہنما کے منصب پر فائز لوگ گِلے شکوے پالنے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ ”اکثر لوگوں کے خیال میں مَیں نے کسی بیوقوف بندے جیسی زندگی بسر کی ہے لیکن مجھے اُن کی پروا نہیں۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ میرے خاندان کو میری وجہ سے بہت مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن میرے خیال میں میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور انتخاب تھا ہی نہیں۔ “

(مرزا ابراہیم کا یہ انٹرویو 28 ستمبر 1993 کو انگریزی روز نامہ فرنٹئیر پوسٹ میں شائع ہوا۔ مترجم: ثقلین شوکت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments