ڈیپ سٹیٹ اور امریکہ


ڈیپ سٹیٹ حکمرانی کی ایک قسم ہے جو طاقت کے ممکنہ طور پر خفیہ اور غیر مجاز نیٹ ورکس پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی ریاست کی سیاسی قیادت کو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کروانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔

پاکستان میں تو آئے روز ڈیپ سٹیٹ یا اسٹبلشمنٹ کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو ڈیپ سٹیٹ کے اثرات امریکہ جیسے ملک میں بھی پائے جاتے ہیں، جس کا ذکر حال ہی میں سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرچکے ہیں، اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی صدارت کو خطرہ ہے، دراصل ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ڈیپ سٹیٹ وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام، امریکی خفیہ ایجنسی کی کے اعلیٰ افسران (اسٹبلشمنٹ) ، اعلی سطحی فنانس اور وہ صنعت کار جن کا تعلق وار انڈسٹری سے ہے پر مشتمل ہے، یہ ایک خفیہ نیٹ ورک ہے، اگر صرف پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکی ڈیپ سٹیٹ نے بھی باری لگائی ہوئی ہے کہ اس بار کون صدر منتخب ہوگا، ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر بار وہی صدر منتخب ہوتا ہے جس پر انہیں یقین ہو کہ یہ ہمارے مفادات کا تحفظ کرے گا چاہے اس کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہو یا پھر ڈیموکریٹ پارٹی سے ہو۔

مثال کے طور پر 2001 میں جب جارج ڈبلیو بش صدر منتخب ہوئے تو (جن کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے تھا) انہوں نے 2001 میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع کی اور ساتھ ہی 2003 میں عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے فوج روانہ کیں جس سے عراق وار ہوئی۔ عراق وار سے ان لوگوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوا جن کا تعلق وار انڈسٹری سے تھا، شاید انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں دوبارہ الیکٹ (سلیکٹ) کروایا گیا اور اس طرح افغانستان اور عراق میں جنگیں ناصرف جاری رہیں بلکہ عراق میں مزید فوج تعینات کردی گئی تھی۔

2008 کے مالیاتی بحران کے بعد 2009 میں ڈیموکریٹ پارٹی کے باراک اوبامہ صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے عراق وار سے توجہ ہٹا کر افغانستان میں مزید فوج تعینات کردی اور بہت سے ممالک (جن میں پاکستان افغانستان بھی شامل ہیں ) میں ڈرون حملے شروع کر دیے جس میں ہزاروں معصوم لوگ لقمہ اجل بنے۔ سب سے زیادہ ڈرون حملے بھی صدر اوباما کے دور میں ہوئے۔ بدقسمتی سے 2009 کا عالمی امن ایوارڈ بھی صدر اوباما کو دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اوباما نے لیبیا میں فوج اتاری اور صدر معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

2011 میں ہی ایک فالس فلیگ آپریشن میں اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان میں مار دیا گیا۔ ایک بار پھر باراک اوبامہ کو 2013 میں سلیکٹ کر دیا جاتا ہے ۔ 2014 میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے عراق اور شام میں داعش کو شکست دینے کے لیے فوج روانہ کر دی جبکہ دوسری طرف افغانستان میں جنگ ابھی بھی جاری تھی، 2015 میں افغانستان میں واقع ایک ہسپتال پر امریکی ائر فورس نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 42 افراد ہلاک ہوئے تھے، باراک اوبامہ کے بعد ایک بار پھر ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا موقع دیا گیا جن کا نعرہ ”امریکہ فرسٹ“ تھا، ٹرمپ نے امریکی ڈیپ سٹیٹ کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے عراق سے فوج نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں امریکی فوج افغانستان سے بھی واپس امریکہ جا رہی ہے، انہیں اقدامات کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو ڈیپ سٹیٹ سے مسلسل جس کا خمیازہ 2020 کے الیکشن (سلیکشن) میں ہار کی صورت میں بھگتنا پڑا جس میں ڈیموکریٹ پارٹی کے جوبائیڈن کو منتخب کیا گیا۔ مستقبل میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اگلی باری کس کو ملتی ہے۔

رئیس عامر محمود
Latest posts by رئیس عامر محمود (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments