اقتدار کی مجبوریاں


یوں تو ہر آرمی چیف کے سینے میں بہت سے اہم راز دفن ہوں گے مگر جنرل مرزا اسلم بیگ کا دور اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان کی مدت ملازمت کے دوران ملک اور خطے میں انتہائی اہم سیاسی اور اسٹریٹیجک تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ شاید اسی لیے جنرل اسلم بیگ کی سوانح حیات مارکیٹ میں آئی تو بہت سے اہم کالم نگاروں نے اس کو اتنی توجہ دی۔ اس کتاب پر تبصرے کے لیے لکھے گئے کالم پڑھے تو خیال ہوا کہ اس میں کوئی اہم معلومات ہوگی، لہذا جونہی ایک دوست کی جانب سے یہ کتاب موصول ہوئی مصروفیت کے باوجود فوراً ہی اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔

کتاب کے مطالعے کے بعد یہ خیال مگر غلط نکلا۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے یہ کتاب آپ بیتی ہے اس لیے جنرل صاحب اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کے ذکر تک محدود رہے لیکن یہ کہنا اس لیے غلط ہے کیونکہ جنرل صاحب جس منصب سے ریٹائر ہوئے اس کا تقاضا تھا کہ وہ موضوع سے متعلق تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے۔ دراصل یہ کتاب ایک اور ریٹائرڈ ملٹری افسر اور مشہور ادیب کرنل اشفاق حسین کی طرف سے جنرل اسلم بیگ کے لیے گئے تفصیلی انٹرویوز پر مشتمل ہے۔

کرنل اشفاق حسین بہت سی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کتاب کا عنوان اقتدار کی مجبوریاں کیوں رکھا گیا اس حوالے سے جنرل صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ عنوان سوچ رہے تھے تو ان کے ذہن میں جنرل ضیاءالحق کے یہ الفاظ بار بار آتے رہے کہ اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، اور چونکہ ان کی کتاب میں حکمرانوں کے بعض ایسے اقدام درج ہیں جو انہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر مجبوری میں لیے، لہذا یہ عنوان مناسب لگا۔

کتاب کی ابتدا میں جنرل صاحب نے روایتی باتیں لکھی ہیں کہ کس طرح ان کے آبا و اجداد چیچنیا سے ازبکستان آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے ظہیرالدین بابر کی فوج کے ساتھ ہندوستان پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے والدین بہن بھائیوں اور پاکستان ہجرت کے بارے بھی جنرل صاحب نے بتایا ہے۔ جنرل صاحب نے فوج میں اپنی سلیکشن کے بارے بھی لکھا کہ ابتدا میں انہیں میڈیکلی ان فٹ قرار دے کر ریجیکٹ کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں مگر انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے مشورے سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی، جس کے بعد ان کی اپیل سننے کے لیے ایک بورڈ بیٹھا۔

جنرل صاحب اس بورڈ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بالآخر انہیں فوج میں شامل کر لیا گیا۔ اسپیشل سروسز گروپ ایس ایس جی کے متعلق بھی کتاب میں تحریر ہے کہ اس کی تشکیل امریکا کے کہنے پر کی گئی کیونکہ اسے سوویت یونین کی وجہ سے اس کی ضرورت تھی۔ ایس ایس جی کے قیام کے لیے سرمائے اور ٹریننگ کا بندوبست بھی امریکا نے کیا تھا اور امریکی فوج کے ہی ایک افسر نے ایس ایس جی کمانڈوز کی ٹریننگ کے لیے چراٹ کا علاقہ پسند کیا۔ اس کے بعد جنرل صاحب نے چند انتہائی اہم موضوعات پر اظہار خیال ضرور کیا لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے۔

مثلاً سقوط ڈھاکہ کے بارے بات کرتے ہوئے جنرل صاحب نے وہ باتیں تو لکھ دیں جو ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا 53 فیصد مشرقی پاکستان میں رہتا تھا۔ 1970 کے الیکشنز میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 153 نشستوں میں سے 151 سیٹیں حاصل کیں، ایک سیٹ مسلم لیگ کے نورالامین اور دوسری چکمہ قبیلے کے راجہ تری دیو رائے نے لی، باقی سب عوامی لیگ کے پاس تھیں۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف 88 سیٹیں لی تھیں، یہ قومی اسمبلی کا 28 فیصد بنتا تھا چنانچہ حکومت عوامی لیگ کا حق تھا لیکن ہم نے یہ حق نہ دے کر ملک توڑ دیا۔

ہم نے مشرقی پاکستان میں شروع سے نفرت کے جذبات پیدا کر دیے تھے۔ وہ تین اطراف سے بھارت میں گھرا ہوا تھا، ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سرحد تھی لیکن پورے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے صرف ایک ڈویژن فوج تھی۔ 1964 کے الیکشنز میں بنگالیوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، وہ مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھیں، انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا جس کے باعث مشرقی پاکستان میں بد دلی پھیلی۔ لیکن جنرل صاحب نے یہ تجزیہ نہیں کیا کہ قیام پاکستان سے لے کر سقوط ڈھاکہ کے درمیانی عرصے میں کیا عوامل تھے جو اس سانحے کی اصل وجہ بنے اور نہ ہی انہوں نے کھل کر ان مکروہ کرداروں کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے ہمارا وجود دولخت ہوا۔

اسی طرح بھٹو صاحب کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے بھی جنرل صاحب محض اپنی صفائی تک محدود رہے اور انہوں نے لکھا کہ جب فوج میں اس بات پر مشورہ ہوا تو میں نے عرض کیا ”بھٹو کو پھانسی دینا بہت ہی غلط فیصلہ ہوگا“ ۔ اس سے ایسی سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جنہیں سنبھالنا مشکل ہو گا، بہتر ہوگا بھٹو کو جلا وطن کر دیا جائے۔ فلسطین کے یاسر عرفات، سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران ان کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں۔

جنرل صاحب کے بقول میری باتوں پر کور کمانڈر ناراض ہو گئے اور انہوں نے اپنے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر حمید گل کو حکم دیا مجھے فوراً چیف سے ملاؤ، میں ایسے افسر کو اپنی فارمیشن میں نہیں رکھ سکتا۔ جنرل صاحب نے یہ تو لکھ دیا کہ میں نے حق اور اصول کی بنیاد پر بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ بھٹو صاحب کو اقتدار سے الگ کرنے کی سازش کس طرح تیار ہوئی اور انہیں پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح حاصل کیا گیا تھا۔

سب سے اہم باب سانحہ بہاولپور کے بارے میں ہو سکتا تھا جس میں جنرل ضیاءالحق کئی سینئر فوجی افسران سمیت شہید ہو گئے، کیونکہ اس حوالے سے جنرل اسلم بیگ صاحب کی ذات پر بھی کئی لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس متعلق بھی مگر جنرل صاحب نے میسر تفصیلات ہی دہرائیں اور زیادہ وقت اقتدار سینیٹ چیئرمین غلام اسحاق خان کے سپرد کرنے کی تفصیل کے بیان پر لگا دیا۔ اس کے علاوہ جنرل صاحب نے بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل کے بارے لگنے والے الزامات میں اپنی صفائی بیان کرنے کی کوشش تو کی، تاہم یہاں بھی انہوں تفصیلات نہیں بتائیں کہ اگر وہ اس عمل میں ملوث نہیں تھے تو آخر یہ سب کس کے اشارے پر ہو رہا تھا۔ اسی طرح انہوں نے الطاف حسین کے بارے میں بھی مختصراً ذکر کیا لیکن ایم کیو ایم کی تشکیل کس طرح ہوئی اس کی تفصیل سے بھی وہ پہلو چھڑا گئے۔ اب اس کے سوا کیا سوچا جائے کہ جنرل صاحب نے جو موضوع تشنہ چھوڑے اس کے پیچھے ان کی مجبوریاں ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments