میں کراچی ہوں، مجھے جینے دو!


میں کراچی ہوں۔ سمندر کے کنارے سے لگا ہوا ہوں لیکن اپنے آپ میں بھی ایک سمندر ہوں۔ میرے اندر بھی ایک بحر کراں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ زندہ جاوداں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جو ہر نئے روز کے ساتھ اور وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب لوگ یہاں ہمیشہ سے نہیں ہیں، زندگی کی لہروں میں بہہ کر یہ لوگ جانے کہاں کہاں سے آتے ہیں۔ کھلے آسمانوں میں سفر کرتے پنچھیوں کی مانند بس میری جانب بڑھے چلے آتے ہیں اور مجھ پر بسیرا کرلیتے ہیں۔

میں ان سے کوئی سوال نہیں کرتا، سوال کرنا میری سرشت میں جو نہیں۔ میری فطرت میں محبت ہے، حفاظت ہے، مامتا ہے۔ میں ایک مہربان شجر کی طرح ان پنچھیوں کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہوں۔ یہ پنچھی مجھ پر اپنا گھر بناتے ہیں، اپنا تن ڈھانپتے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں گویا میں ہی ان کا روٹی کپڑا اور مکان ہوں۔ میرے بچوں یعنی میری جڑوں، شاخوں، ٹہنیوں، پتوں حتی کے ننھی منی کونپلوں نے بھی ان کے آنے کو کبھی زحمت نہیں گردانا اور ہمیشہ اپنا دل اور اپنے بازو ان کے لیے کھولے رکھے۔

اب، جب کہ بہت سا وقت گزر گیا ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اس گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ پنچھی تعداد میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے تلے میری اپنی جڑیں، شاخیں، ٹہنیاں اور پتے دب کر رہ گئے ہیں۔ وہ ایک حسرت سے میری طرف دیکھتے ہیں۔ وہ بارہا مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کی جگہ ان پنچھیوں کو کیوں دے دی؟ میں نے کہا ان کی مدد کے لیے، مہمان تو رحمت ہوتا ہے، تو وہ مجھے طعنہ دیتے ہیں، تم نے ان کی مدد کی، انہوں نے تمہارے لیے کیا کیا؟

مہمان تو جانے کے لیے ہوتا ہے وہ تو آج تک یہیں ہیں، جاتے کیوں نہیں؟ پچھلے وطن میں اپنے گھر محفوظ کر کے وہ ہمارے حقوق کیوں سلب کرتے ہیں۔ ان کی جڑیں کہیں نہیں، وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہم کہاں جائیں ہماری تو جڑیں یہاں ہیں۔ میرے بچوں کو شکوہ ہے کہ میں نے ان پنچھیوں کو یہاں رکھ کر اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو سمجھاؤں اور خود بھی ان باتوں کو اہمیت نہ دوں لیکن اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ میرے بچے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

اب میں ان پنچھیوں کے بوجھ کے نیچے دبتا جا رہا ہوں۔ ان کے فضلے کے نیچے میری پاکیزگی دم توڑ چکی ہے۔ میرا مضبوط تنا اپنے سوختہ و شکستہ بدن کو اپنی خشک چھال کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، میری ٹہنیاں، میری شاخیں دب کر ٹیڑھی ہو رہی ہیں، میرے پتے سانس نہیں لے پاتے، میری کونپلوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ اے پنچھیوں یہاں سے چلے جاؤ! تم سب کے گھر سلامت ہیں وہاں لوٹ جاؤ۔ مجھ پر رحم کرو! مجھے جینے دو۔

میری سانسیں بند ہو رہی ہیں، مجھے میری سانسیں واپس کردو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments