محترم ڈاکٹر ساجد علی کے مضمون ‘خدا کا پیشگی علم اور انسانی اختیار’ پر تبصرہ


میرے محترم دوست اور استاد جناب ڈاکٹر ساجد علی صاحب نے اپنے زیر نظرمضمون میں ‘خدا کے پیشگی علم (فورنالج) اورانسانی اختیار میں مطابقت” کے مسئلہ، پر بہت خوبصورت اور مدلل فلسفیانہ تحریرنظر قارئین کی ہے۔ جناب ساجد علی صاحب کے نظریہ سمیت ،جتنے بھی نظریات اس وقیع تحریر میں زیر بحث آئے ہیں یا ان کا جائزہ لیا گیا ہے، ان کی بنیاد ایسی وجودیات (آنٹالوجی) پر ہے جو قرآن پاک کی آنٹالوجی سے یکسرغیر ہم آہنگ ہے۔ وجودیات، ما بعدالطبیعات کی ایک شاخ (یا فنکشن) ہے۔ ان وسیع ترین تصورات کی تلاش جن میں، خدا سمیت تمام حقیقت، یا اسکی خصوصیات کو بیان کیا جا سکے، وجودیات کا کام ہے۔

 فلسفیانہ وجودیات خدا سمیت تمام حقیقت (رئیلیٹی ) کو ‘ازلی’ اور’حادث’ کی اصطلاحات میں بیان کرتی ہے۔ اس وجودیات کے مطابق ‘ازلیت(قِدم) اور حدوث وہ وسیع ترین خصوصیات ہیں جن میں خدا اور ما سوا ، ہر شے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ فلسفیانہ وجودیات(آنٹالوجی) میں ازلیت کی اصطلاح کو دو مفاہیم میں متصور کیا گیا ہے:

(1) ازلی (ایٹرنل) کیلئے مسلم متکلمین اور فلاسفہ کے ہاں ‘قدیم (غیر مخلوق)’ اور حادث (کنٹنجنٹ) کیلئے ‘مخلوق ‘ کی اصطلاحات مستعمل ہیں۔ زمان میں جس چیز کاآغاز متصور نہیں ہو سکتا ، وہ ازلی/قدیم ہے، اورجس کے لئے آغاز کا تصورکیا جا سکتا ہو وہ حادث/مخلوق ہے۔اس نقطہ نظر کے مطابق خدا اور اسکی صفات قدیم ہیں اور باقی ہر شے مخلوق۔اس وجودیات میں تیسری کوئی اور وجودیاتی کیٹیگری نہیں۔ اسی وجودیات کو ماننے کی وجہ سے مسلم متکلمین میں ‘قرآن پاک مخلوق (حادث ) ہے یا غیر مخلوق(قدیم)’ ، کا مسئلہ پیدا ہوا۔معتزلہ نے قرآن پاک کو مخلوق(حادث ) قرار دیا۔اشاعرہ فرقے کے بانی حضرت ابو الحسن الاشعری نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس طرح قرآن پاک میں نازل شدہ شرعی احکام ، دائمی نہیں رہیں گے بلکہ حادث اور قابل تغیر قرار پائیں گے، قرآن پاک کو اللہ کی صفت علم اور صفت کلام کے اندر ہمیشہ سے مضمر قرار دیتے ہوئے، قرآن پاک کے قدیم (غیر مخلوق ) ہونے کا نظریہ پیش کیا جسے عقیدے کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہوگیا۔

(2) ازلی/قدیم کی اصطلاح ‘ماورائیت زمان’ (Timelessness)کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتی ہے جس کے لئے جناب ساجد علی صاحب نے ‘غیر زمانی’ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس طرح پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے شخص کے لئے سامنےکا منظر بھی اسی طرح روشن اور فکسڈ ہوتا ہے جیسے عقب میں واقع منظر ، ازلیت کے اس تصور کے مطابق خدا اگرچہ خود تو ماورائے زمان (غیر زمانی) ہے لیکن مستقبل اس کے سامنے اسی طرح روشن اور فکسڈ ہے جیسے ماضی اور حال۔یعنی خود غیر زمانی ہونے کے باوجود خدا “ازل سے ابد تک وقت کے تمام پھیلاؤ کا علم رکھتا ہے۔ “اس تصور ازلیت کے مضمرات میں سے ایک یہ بھی ہے ، جیسے کہ ڈاکٹر ساجد علی صاحب نے بیان کیا، کہ “غیر زمانی خدا کا فرد اورشخص ہونا ناممکن ہے۔”ازلیت کا یہ غیر زمانی تصور ، خدا کے لئے حوادث کے علم کو جب وہ وقوع پذیر ہو رہے ہوں، ممکن نہیں رہنے دیتا۔ ازلیت کا یہ تصور نہ صرف انسانی اختیار کی نفی کرتا ہے بلکہ غیر زمانی(ماورائے زمان) خدا کے ارادے اور نئی تخلیق کی اہلیت کی بھی نفی کر دیتا ہے، اور کائنات کو ازل سے فکسڈ بنا دیتا ہے۔

جناب ساجد علی صاحب نے “خدا کے پیشگی علم اور انسانی اختیار” کے مسئلے کوجس آسان زبان میں بیان کیا ہے، مختلف پہلوؤں کا جس خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے اور پیش کئے گئے نظریات کا جس قابلیت سے تجزیہ کیا ہے،درج بالا آنٹالوجی کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی اضافہ کرنا یا تنقید کرنا مجھے اپنے لئے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ساجد صاحب نےتحریر کے آخر میں “خدا کے محیط علم کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ ہر قابل علم شے ، اس کے علم میں ہے۔” کی صورت میں اس مسئلہ کا جو حل پیش کیا ہے میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن اس مسئلے کا ایک نہایت اہم پہلو اور بھی ہے جسے صدیوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ میں جناب ساجد علی اور فاضل قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

قرآنی وجودیات (آنٹالوجی) کے مطابق ، خدا (اور اسکی صفات) کے ما سوا جو کچھ بھی ہے وہ: خلق اور امر، دو کیٹیگریز پر مشتمل ہے۔جس چیز کا بھی ارادہ الٰہی سے ابداء ہوا ہے، وہ یا تو اللہ کی خلق کی کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہے یا امر کی کیٹیگری سے۔ خلق (کری ایشن)، تخلیق کی جاتی ہے اور امر (کمانڈ) ذات الٰہی سے صادرکیا جاتا ہے، پھونکا جاتا ہے، نازل کیا جاتا ہے یا انسٹال کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ارشاد ہے کہ ‘ہم نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کیا اور یہ اللہ کے امر سے قائم ہیں۔ ‘( سورہ الروم ، آیت 25) اللہ کا امر آسمانوں میں نازل ہوتا ہے۔ ‘( ) ‘خلق بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے۔’ (الاعراف: آیت 54) ”امر اللہ کا پورا ہو کر رہتا ہے۔ ۔ ۔ “ (القرآن، 8:42)

 ”امر نازل ہوتے رہتے ہیں ساتوں آسمانوں اور زمین کے بمثل دیگر زمینوں میں، ۔ ۔“ (القرآن، 65:12)

”امر وحی فرمائے اللہ نے سات آسمانوں میں، ہر آسمان کیلئے۔ “ (القرآن، 41:12)

 خلق ، اللہ کی الوہیت میں کسی طرح شریک ہے نا ہی امر۔ اللہ اور اسکی صفات ،ان میں سے کسی آنٹالوجیکل کیٹیگری میں نہیں آتیں۔ اللہ تعالیٰ، خلق اور امر کےسا تھ کسی بھی طرح کی مماثلت سے پاک ہے۔ خدا (اللہ) اور اسکی صفات، ازلی ہیں نا حادث ۔ازلیت کے درج بالا دونوں تصورات میں سے کسی کے مطابق بھی اللہ ازلی نہیں ہے۔’ازلیت ‘ عربی کا لفظ ہے اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کسی بھی جگہ یہ لفظ اپنی ذات عالی کو بیان کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ یہی بات ازلیت کے متبادل لفظ ‘قدیم’کے بارے میں بھی درست ہے۔ ازلیت کا لفظ ‘خلق’ یا ‘امر’ کےلئے اثبات یا نفی کے لئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن قرآنی وجودیات کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ(یا اسکی صفات) کے لئے اسکا استعمال ممکن نہیں۔

یہ اصطلاحات ،نا صرف مسلم الٰہیات، بلکہ ترجمہ و تفسیر قرآن میں بھی صدیوں سے داخل ہو چکی ہیں اور کنفیوژن، تضاد اور فرقہ واریت کا باعث ہیں۔ اصطلاحات کبھی نیوٹرل نہیں ہوتی۔ مابعدا لطبیعاتی نظریہ جس کی بنیاد پر انکی تشکیل ہوئی ہوتی ہے، وہ اس کی پشت پر سوار ہوتا ہے۔فلسفیانہ مابعدالطبیعاتی نظریہ میں تشکیل پائی ہوئی اصطلاح جب کسی قرآنی مسئلہ پر بحث کے لئے قبول کر لی جاتی ہے، توعقائد میں تضادات کے پیدا ہونے سے بچنا ممکن نہیں ہوتا ۔

اسلام میں ‘علم الٰہی اور انسانی اختیار میں مطابقت’ کے حوالے محترم ڈاکٹر ساجد علی صاحب نے جتنے بھی نظریات پیش کئے ہیں، بشمول ان کے اپنے نظریے کے، وہ قرآنی وجودیات (آنٹالوجی) سے غیر ہم آہنگ، فلسفیانہ وجودیات پر مبنی ہیں ۔ ڈاکٹر ساجد علی کے نظریہ میں ، اگرچہ مسئلہ زیر بحث پر دیگر نظریات کے مقابل بہتر حل پیش کی گیا ہے، لیکن غیر قرآنی فلسفیانہ وجودیات ، پر مبنی ہونے کی بنا پر اس نظریہ کے بھی ویسے ہی مضمرات ہونا متوقع ہیں، جیسے دیگر نظریات کے خود ساجد صاحب نے کھولے ہیں۔

فلسفیانہ وجودیات ، اشعری الٰہیات کے ان بنیاد ی مفروضوں میں سے ایک ہے، جس پر اسلامی عقائد کی تشکیل ہوئی ہے۔ بعض اہم عقائد بالخصوص ‘اللہ کا پیشگی علم اور انسانی اختیار ‘ میں تضاد، اختلاف اور امت مسلمہ میں تفرقہ کی دیگر وجوھ میں سے ایک نہایت اہم بنیادی وجہ اشعری الٰہیات (علم الکلام) کا غیر قرآنی فلسفیانہ وجودیات پر مبنی ہونا بھی ہے۔

 کونیات (کاسمولوجی) ، وجودیات (آنٹالوجی) کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔اشعری الٰہیات کے درج بالا علمی مغالطہ کی وجہ سے اشعری الٰہیات پر تشکیل پانے والا کونیاتی نظریہ ، جواشاعرہ کے نظریہ جواھر کے نام سے موسوم ہے، بھی درست نہیں اور میری تحقیق کے مطابق مسلم ممالک میں تجربی سائنس کی ترقی میں رکاوٹ کی بہت بڑی وجہ ااشعری کونیات یعنی نظریہ کائنات ہے۔تفصیل کے طالب میری اردو کتاب ‘مسلم فکر کی قرآنی جہات'(2018) اور The Qur’anic Theology, Philosophy and Spirituality (2016) دیکھ لیں جو researchgate , Academia.edu, اور http://quranwithscience.com/essays-articles.html سے فری ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں۔

محترم ساجد علی صاحب کی تحریر پر تبصرہ اتنا وسیع نہیں لکھا جا سکتا جس میں تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جا سکے۔ اشعری الٰہیات کی وجودیات (آنٹالوجی) کے اہم پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود تھا۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلم علماء اشعری الٰہیات کے بنیادی مفروضوں کا قرآن پاک کی روشنی میں جائزہ لے کر عقائد کی از سر نو تشکیل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments