گیلیلیو، بریخت اور اسلم اظہر


( یہ 1980 کی دہائی کی بات ہے جب، ٹیلی وژن سے علیحدگی کے بعد ، اسلم اظہر نے دلوں اور ذہنوں پر دستک دینے کے لئے، تھیٹر کو اپنا مورچہ بنایا اور بدل دینے اور بدل جانے کی خواہش کو بیدار کرنے کے لئے کئی شاہکار پیش کیے، ان ہی میں جرمن ڈرامہ نگار برتولت بریخت کی تحریر کے توسط سے گیلیلیو کی داستان بھی ہے جسے منصور سعید کے قلم نے، پوری مہارت سے اردو کا روپ دیا)

نہیں معلوم
وہ تھیٹر تھا کہ زندگی
یا زندگی کا تھیٹر
یا پھر، تھیٹر میں زندگی،
وہ کچھ بھی تھا،
تھا زندگی سے بھرپور
اور بلاشبہ، صرف اور صرف زندگی کے لئے!
تالیاں ایسی کہ کانوں پڑی آواز نہ سنائی دے
اور دل کی دھڑکن، سینہ پھاڑ کے باہر نکلنے کو بے تاب
ماحول ایسا جیسے تماشائی خود، عملاً سچ کے مدعی بن گئے ہوں
ہاتھ تھک جائیں
مگر داد دینے کی تڑپ وہیں کہ وہیں
ہر آنے والا منظر
ہر جانے والا جملہ
اور ہر رہ جانے والا تاثر
سچ اور سچ کے لئے، جینے کا استعارہ!

گیلیلیو:

” سچ صرف اتنا ہی آگے جاتا ہے جتنا کہ ہم اسے آگے دھکیلتے ہیں۔ تم کمپانیہ کے انسانوں کی بات اس طرح کرتے ہو جیسے وہ جھونپڑیوں پر جمی ہوئی کائی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر وہ خود آگے نہیں آتے اور خود سوچنا شروع نہیں کرتے تو آبپاشی کا بہترین نظام بھی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ میں ان کا مقدس صبر تو دیکھ چکا ہوں لیکن کہاں ہے ان کا مقدس غصہ“

گیلیلیو کا (تاریخ ساز) اعلان
بریخت کی (حقیقت پسندانہ) زبان
اور
اسلم اظہر جیسا (بے باک) ترجمان
پھر کیسے خیالات، جذبات اور احساسات کے طوفان کے آگے کوئی بند باندھ سکے
گیلیلیو:
” وہ جو سچائی کو نہیں جانتا، صرف احمق ہے لیکن وہ جو جانتا ہے اور پھر اسے جھوٹ کہتا ہے، مجرم ہے“
سو، حیرت، مسرت اور
(کھیل اور دیکھنے کی) حسرت
کھیل کے اختتام کی طرف
جاتے ہوئے بھی،
ویسی ہی تشنہ ہے
کہ یہ کہانی ختم ہونے والی نہیں
یہ کہانی، دراصل کہانی نہیں،
زندگی کی آپ بیتی ہے
سچ کو آگے بڑھانے کے لئے
ماضی کے ملبے سے، کچھ ڈھونڈ نکالنے کے لئے


گیلیلیو:

” میں اتنا عالم فاضل نہیں ہوں جتنا فلسفے کے شعبے کا استاد۔ میں احمق ہوں۔ میں کچھ نہیں سمجھتا۔ چنانچہ میں اپنے علم کے پھٹی ہوئی چادر میں پیوند لگانے ہر مجبور ہوں۔ میری سائنس ابھی علم کی بھوکی ہے۔ عظیم سوالات کے جواب میں ابھی تک ہمارے پاس مفروضات کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ہم طلب کرتے ہیں ثبوت!“

یقیناً یہ کہانی نہ ختم ہونے والی ہے
جستجو کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے
تجسس کا علم بلند رکھنے کے لئے
نادیدہ دیکھنے کے لئے
پوشیدہ پانے کے لئے
تاریکی سے لڑنے کے لئے
اجالے کی طرف داری کے لئے!

گیلیلیو کی داستان بجا طور ہر، ہمارے تھیٹر کے ان اچھے کھیلوں میں شامل ہوگا جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خوش قسمت، جو اس عظیم کھیل کو ہوتا ہوا دیکھنے کے خوش گوار تجربے سے گزرے، یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ عظیم تخلیق کاروں کے اس اظہار کو ہمیشہ ابلاغ ( اور موثر ابلاغ ) کے طور پر اپنی یاداشت میں محفوظ پائیں گے۔

اگست کی مہینے میں اس کھیل کی یاد کچھ یوں آئی کہ اس کھیل کا مصنف، جرمن ڈرامہ نگار برتولت بریخت، اگست کے مہینے میں ہی ڈرامہ نگاری کے فن کو اپنی منفرد طرز فکر پر مبنی، خیالات کو انگیخت دینے والی، زندہ تخلیقات دے کر دنیا کے سٹیج سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments